خوف ہے عمران خان کے خلاف جلد مزید مقدمات درج کیے جائیں گے، رؤف حسن
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے کہا ہے کہ ریاست کے کارندوں کی ہر ممکن کوشش ہے کہ خان صاحب جیل سے نہ آئیں اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ ان کے مقدمات کا فیصلہ نہ آنے پائے، ہمیں خوف ہے کہ عمران خان کے خلاف عنقریب مزید مقدمات درج کیے جائیں گے۔
تحریک انصاف کے ترجمان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عدت کیس میں جب جج صاحب پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا تو انہوں نے فوری طور پر خط لکھ دیا کہ یہ کیس کسی اور جج کے پاس بھجوایا جائے، جس شخص کے پاس آنکھیں نہیں ہیں اس کو بھی نظر آ رہا ہو گا کہ جج پر کس طرح کا دباؤ ڈالا گیا ہو گا، کسی کس قسم کی ان کو دھمکیاں دی گئی ہوں گی کہ انہوں نے آج اس کا فیصلہ نہیں سنانا اور سزا نہیں دینی۔
انہوں نے کہا کہ آج یہ کیس کسی اور جج کے پاس چلا گیا ہے اور وہ اب گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد کیس لگائیں گے، ایک طرف عمران خان پر یہ بھونڈے مقدمات بنوائے گئے تھے اور جب وہ ایک ایک کر کے کریش ہوتے گئے تو اب صاحب اقتدار لوگوں کی پالیسی یہ ہے کہ جن کیسز کا اب جج صاحبان نے کیسز سنانا ہے، ان کو زیادہ سے زیادہ ملتوی کیا جائے اور وہ فیصلے نہ آئیں اور خان صاحب اس وقت تک قید میں رہیں جب ان کے خلاف کوئی اور بھونڈا مقدمہ نہیں بن جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایسا لگتا ہے کہ ریاست جبر کا نشانہ بنا رہی ہے، ریاست کے اداروں پر اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور آج کا مقدمہ اس بات کی مثال ہے کہ ریاست کے کارندوں کی ہر ممکن کوشش ہے کہ خان صاحب جیل سے نہ آئیں اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ ان کے مقدمات کا فیصلہ نہ آنے پائے۔
رؤف حسن نے کہا کہ انصاف کا قتل اور ریاست کو کمزور ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، میں تو کہتا ہوں کہ اس ملک کا مسئلہ اسٹیبلشمنٹ کی ملکی مسائل میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت ہے کہ وہ وزیر اعظم کو نکالتے ہیں اور انہیں واپس لے آتے ہیں، اس کے لیے ہماری جدوجہد جاری رہے گی اور آج بھی ہم نے اسی اسٹیبلشمنٹ کا ایک گھناؤنا چہرہ عدت کیس کے سلسلے میں کمرہ عدالت میں دیکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شاعر احمد فرہاد کا کیس بھی آپ کے سامنے ہے اور اتنے دن حبس بے جا میں رکھنے کے بعد پہلے آزاد کشمیر باغ کے کسی پولیس اسٹیشن میں اس کو لایا گیا اور پھر مظفرآباد میں کوئی کیس درج ہے تو وہاں بھیجا گیا، حقائق پر مبنی ایک نظم لکھنے کی پاداش میں ایک انسان کے پچھلے ایک یا سوا مہینے میں کیا ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت خاں صاحب کے خلاف عدت اور سائفر کے مقدمے دراصل ختم ہو چکے ہیں اور ان میں سے ایک کا فیصلہ آنا تھا، دیکھتے ہیں وہ کب آتا ہے، سائفر کا مقدمہ بھی کریش کر چکا ہے، توشہ خانہ میں سزا موخر ہو چکی ہے اور القادر پر ضمانت مل چکی ہے، اب تک خان صاحب کو جیل سے باہر آجانا چاہیے تھا لیکن وہ ابھی تک جیل میں موجود ہیں اور ہمیں خوف ہے کہ عمران خان کے خلاف عنقریب مزید مقدمات درج کیے جائیں گے۔
ترجمان نے کہا کہ تحریک انصاف کے بیانیے کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کیا جا رہی ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کے پیچھے کونسی طاقتیں کارفرما ہیں، 1971 کے سانحے کے حوالے سے غلط باتیں پھیلائی جا رہی ہیں، حمودالرحمٰن کمیشن میں کہیں بھی فوج کے بارے کوئی غلط بات نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ حمودالرحمٰن کمیشن میں کہا گیا کہ فوج بہت ہادری سے لڑی اور یہ قیادت کی ناکامی تھی، اس میں ایک شخص کی بات بار بار کیا گیا جس کا نام یحییٰ خان تھا، اس نے اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لیے ریاست کو داؤ پر لگایا اور ریاست کے دو ٹکڑے ہوئے۔
رؤف حسن نے کہا کہ یہ 1971 کی بات ہے جب ایک مطلق العنان شخص نے اپنے اقتدار کو طوالت بخشنے کے لیے ریاست کو داؤ پر لگایا اور 54فیصد ریاست ایک آزاد ملک بن گیا تو ہم دونوں موازنہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ آج بھی ایک شخص واحد اپنی آمریت، اقتدار کو طوالت دینے کے لیے پچھلے دو سال سے ریاست کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس زعم میں ہیں کہ مشرقی پاکستان ایک ہزار میل دور تھا تو وہاں لڑنا اتنا آسان نہیں تھا جتنا یہاں ہو گا، ہم اس زعم میں ہیں کہ یہاں ملک کا کوئی حصہ الگ نہیں ہونے دیں گے لیکن اگر آپ طائزانہ نظر ڈالیں تو پاکستان کی چھ اکائیاں ہیں، کیا ہم نے پاکستان کی شکل صرف سندھ اور پنجاب کی شکل میں دیکھنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو شخص اپنے اقتدار کو طوالت دینے اور اپنی آمریت کو برقرار رکھنے کے لیے ریاست کے مستقبل کو داؤ پر لگایا ہوا ہے کیا ہم اس کو یہ کام کرنے دیں گے جو کام وہ اس وقت کررہا ہے، کیا ہماری عدالتیں اور باقی ادارے اپنا کردار ادا نہیں کریں کہ ملک پر آمریت کی گرفت کو ختم کیا جائے اور آئین، قانون اور جمہوریت کو بحال کیا جائے، کیا اس ملک کا مستقبل آمریت سے منسلک ہے یا آئین و قانون کے ساتھ منسلک ہے، کوئی بھی ریاست آمریت کے بل بوتے پر نہیں چل سکتی۔
پی ٹی آئی کے ترجمان نے کہا کہ ہماری لڑائی فوج کے ساتھ نہیں بلکہ ایک فرد واحد کے مقاصد کے ساتھ ہے، اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے ان کے جنون کے ساتھ ہے، جب تک اس آمریت کا خاتمہ نہیں ہوتا اور آئین و قانون کو بحال نہیں کیا جاتا، اس وقت تک پاکستان مشکلات سے دوچار رہے، ہم قانون و انصاف کی بحالی تک یہ لڑائی لڑتے رہیں گے۔