5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر بات چیت جاری، بیرونی سرمایہ کار ایس آئی ایف سی سے خوش ہیں، عطا تارڑ
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ سودی عرب سے 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر بات چیت جاری ہے، بیرونی سرمایہ کار خصوصی سرمایہ کاری کونسل (ایس آئی ایف سی) سے خوش ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں غزہ میں امن قائم ہو، ریاض میں ورلڈ اکنامک فورم میں وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ بات کی کہ غزہ میں امن کے بغیر دنیا میں امن نہیں ہوسکتا، ریاض کا وہ ہال اس بات پر تالیوں سے گونج اٹھا تھا، یہ مقامات ہوتے ہیں جب آپ اپنی آواز اٹھا سکتے ہیں، وزیر اعظم نے ناروے اور آئرلینڈ کی وزرائے اعظم سے بھی بات چیت کی ہے تو اس کا اچھا اثر پڑے گا اور مظلوم فلسطینیوں کو پتا چلے گا کہ کچھ ممالک ان کے حوالے سے بات کر رہے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم فلسطین میں امن کے خواہاں ہیں، یہ جو دوسرے ممالک کے ساتھ روابط ہیں یہ بہت اہم ہے، ہم اس پر اظہار یکجہتی کرتے ہیں، ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ دیرپا امن کے لیے اس کوئی حل نکلے۔
عطا تارڑ نے کہا کہ خصوصی سرمایہ کاری کونسل میں اہم فیصلہ ہوا سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے، وزیر اعظم جہاں جارہے ہیں وہ بات کر رہے ہیں کہ ہم کشکول توڑنا چاہتے ہیں، ہمیں مالی امداد نہیں چاہیے ہم سرمایہ کاری اور تجارت چاہتے ہیں، ایس آئی ایف سی کو بہت پذیرائی مل رہی ہے، جو دوست ممالک ہیں ان کے سرمایہ کار بہت خوش ہیں کہ ایک ہی فورم سے ان کے تمام معاملات حل ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شہباز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ 7 ڈیسک قائم کیے جائیں گے جن میں چائنا ڈیسک، قطر ڈیسک، یو اے ای ڈیسک، سعودی ڈیسک، یورپی یونین ڈیسک، امریکا ڈیسک اور فار ایسٹ ڈیسک شامل ہیں، یہ ڈیسک ایس آئی ایف سی کے اندر قائم کیے گئے ہیں، جن کی توجہ سرمایہ کاری لانے اور تجارت کے حجم کو بڑھانے پر مرکوز ہوگی، متحدہ عرب امارات کی سرکاری ایجنسی نے 10 ارب ڈالر مختص کرنے کی خبر ریلیز کی، سعودی عرب کے ساتھ بھی 5 ارب ڈالر کی بات چیت چل رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا چین کا دورہ ہونے والا ہے اور یہ بہت اہمیت کا حامل ہے سی پیک کے حوالے سے اور سیکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے حوالے سے، آئی ایم ایف نے بھی مثبت پریس ریلیز جاری کی ہے، تجارتی خسارہ ہمارا کم ہوا، آئی ٹی ایکسپورٹس بڑھی، مہنگائی کم ہوئی، زر مبادلہ کے ذخائر بھی بڑھے ہیں، معیشت بہتر ہورہی ہے، میکینز ی کو ہائر کیا گیا ہے ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کے لیے، پی آئی اے کی نجکاری پر بھی کام چل رہا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ کچھ ملک دشمن قوتیں اس وقت سرگرم ہیں، آج کی حکومت کو 1971 سے ملایا جارہا ہے تو یہ کون لوگ ہیں؟ یہ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ خان نہیں تو پاکستان نہیں، پاکستان تا قیامت رہے گا اور پاکستان 27ویں رمضان کو بنا تھا اس پاکستان نے ترقی کرنی ہے اور آگے بڑھنا ہے، یہ لوگ جو خود کو شیخ مجیب سے ملاتے ہیں اس کا مقصد وہی ہے جو ہمیشہ ہوتا ہے، ایک جگہ عمران خان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں نا رہا تو پاکستان ٹوٹ جائے گا تو یہ اپنی سیاسی بقا کو پاکستان کی سالمیت سے جوڑتے ہیں، آپ چھوٹے مفادات کی خاطر پاکستان کے مفادات کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ان کی خواہش تھی کہ سری لنکا کی طرح پاکستان ڈیفالٹ ہوجائے، میں نا رہا تو یہ ملک بھی فنا ہوجائے تو ایسا ہوگا نہیں ان کے کہنے سے، ان کا کیا دھرہ قوم کے سامنے ہے، آپ آئی ایم کو خط لکھیں، اس کے سامنے مظاہرے کریں تو ان کی کوششیں سب کی سامنے ہیں۔
عطا تارڑ نے کہا کہ ان کی آئی ایم ایف والی کوشش کامیاب نہیں ہوئی، ان کا مقصد تھا کہ میں اقتدار میں نہیں رہا تو پاکستان کے مفادات کو قربان کردوں اور یہاں تباہی پھیل جائے، انہوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستانی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی، یہ بعد میں شرمندہ بھی نہیں ہوتے، انہوں نے سائفر کی کہانی گھڑی تو کیا قومی سلامتی کھیلنے کے لیے ہوتی ہے؟ ہماری کاوشوں سے دوست ممالک سرمایہ کاری کی بات کر رہے ہیں، انہوں نے دوست ممالک کے تحائف بیچے تو کیا ان ممالک کو محسوس نہیں ہوا ہوگا کہ یہ ہمارے تحائف بلیک میں بیچ دیتا ہے، تو ان کی کرتوت یہ ہے اور خود کو شیخ مجیب سے ملاتے ہیں۔
انہوں نے دریافت کیا کہ کیا شیخ مجیب نے بھی تحائف بیچے تھے؟ کیا یہ تاریخ سے نا اشنا ہیں؟ مظلومیت کا ڈھونگ یہ رچا رہے ہیں، مظلوم تو وہ ہوتا ہے جس نے اپنی اولاد کو ڈکلیئر کیا ہو، مظلوم وہ ہے جس نے 190 ملین کی چوری نا کی ہو پراپرٹی ٹائیکون کے ساتھ مل، ان کی تو ڈکلیئریشن مکمل نہیں، توشہ خانہ، سائفر، القادر کا کیس ان پر ہے اور یہ 1971 کا ذکر کرتے ہیں۔
عطا تارڑ نے کہا کہ یہ وہی سوچ ہے کہ خان نہیں تو پاکستان نہیں، اب ان کا اقتدار کا نشہٹوٹ رہا ہے، جیل میں بیٹھے اقتدار سے دوری نے ملک کے ٹوٹنے کی بات کرنے پر مجبور کردیا ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ 1971 کی بات کر کے یہ صورتحال بنادیں کہ ابھی بھی وہی حالات ہیں، انہوں نے ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج یہ ملک کے ٹوٹنے کی بات کرتے ہیں، مظلومیت کہنے سے نہیں ہوتی، یہ ملکی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے، ملک ڈیفالٹ نہیں ہوا ان کے خواب پاش پاش ہوگئے، ان کی کوشش تھی کہ ملک ڈیفالٹ کرے اور یہ سیاسی فائدہ اٹھائیں، یہ ملکی سالمیت کو داؤ پر لگا کے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں، پاکستان سب سے پہلے ہے، سیاستدان بعد میں ہیں، پاکستان کی سالمیت اور استحکام ضروری ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ نئی مہم چلائی جارہی ہے، اس کی فنڈنگ کہاں سے آرہی ہے؟