گندم اسکینڈل: ’حکومت نے فری مارکیٹ کے نام پر کسانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے‘
محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی دو خواتین جو پہلی بار مل رہی ہوں، ایک دوسرے کا حال احوال کیسے پوچھیں گی؟ میں ان دونوں کی باتیں سننے کے لیے معذرت خواہ ہوں لیکن پنجاب کے دیہی علاقوں میں ایک ایسی بس میں سفر کرتے ہوئے کہ جس میں لوگوں کا رش ہو اور انسانوں کے ساتھ بکرے اور مرغیاں بھی سفر میں ہوں تو ایسے میں نادانستہ طور پر میں دو خواتین کی گفتگو کا سامع بن گیا جو میرے ساتھ والی نشستوں پر براجمان تھیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اس جدوجہد کا ذکر کیا جو انہوں نے پورے سال اپنے خاندان کو گندم اور دودھ تک رسائی فراہم کرنے میں کی۔
دونوں خواتین کا موضوعِ گفتگو ہر گز غیرضروری نہیں تھا۔ ان دونوں کی گفتگو ان تمام خواتین کی عکاسی کررہی تھی جو اپنے خاندان کا پیٹ پالتی ہیں اور وہ جن دو اشیا کے حوالے سے تبادلہ خیال کررہی تھیں یعنی گندم اور دودھ ہمارے ملک میں کروڑوں لوگوں کے لیے غذائی تحفظ کا اہم ستون ہے۔ گھریلو انٹیگریٹڈ اکنامک سروے 19-2018ء کے مطابق غریب اور امیر دونوں گھرانوں میں گندم اور دودھ کے اخراجات 41 فیصد کے لگ بھگ ہیں۔
کاشتکار خاندان، ان دو اشیائے خورونوش کے حصول کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں جیسے ناقابلِ معافی اور غیرمتوقع ٹیکس وغیرہ۔ گزشتہ صدی میں ہماری زراعت محض خاندان کی ضرورت پورے کرنے تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ مارکیٹ کے لیے اجناس کی پیداوار میں تبدیل ہوچکی ہے۔ تاہم کسانوں کے مارکیٹ کے ساتھ تعلقات مستحکم نہیں ہوئے اور نہ ہی ان دونوں کے تعلقات قابلِ اعتماد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاشتکار فصل کی کٹائی کے فیصلے کرتے ہوئے مارکیٹ کی ذہنیت کو مدنظر رکھتے ہیں۔ گندم کی کاشت اس کی مثال ہے۔
گندم سے بھری ہوئی ایک بھٹی کاشتکار خاندان کے لیے جس خوشی کا باعث بنتی ہے، اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ملک میں 83 لاکھ کسان خاندانوں میں سے 84 فیصد ربیع کے موسم میں 28 ایکڑ اراضی پر گندم کی کاشت کرتے ہیں۔ پاکستان میں گندم کی فصل کا اوسط رقبہ 4.1 ایکڑ ہے۔ دیکھا جائے تو مجموعی ایکڑ میں سے ایک ایکڑ پیداوار کو کسان اپنے گھروں میں استعمال کے لیے ذخیرہ کرتے ہیں جبکہ دوسرے ایکڑ میں وہ اپنے فارم میں کام کرنے والے مزدوروں کو تقسیم کردیتے ہیں جس کے بعد بقیہ دو ایکڑ کو مارکیٹ میں فروخت کردیا جاتا ہے۔ مارکیٹ سے یہ گندم شہری اور دیگر غیرپیداواری صارفین کو فروخت کردی جاتی ہے۔
اگر اضافی گندم سے حاصل ہونے والا منافع بیج اور کھاد جیسے عناصر پر خرچ ہونے والی رقم سے زیادہ ہے تو وہ خوش ہیں کیونکہ اس طرح اپنے خاندان اور جانوروں کو سال بھر کھلانے کے لیے ان کے پاس گندم بھی ہے اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم بھی۔ اگر انہیں گندم کی فروخت سے مطلوبہ رقم نہیں ملتی تو وہ خوش تو نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود انہیں یہ اطمینان ضرور ہوتا ہے کہ ان کے پاس اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے خوراک ہے، اس لیے ان کے خاندان کے لیے خوراک کی صورت حال اتنی خراب نہیں ہوگی۔
ربیع کے موسم میں کون کون سی فصل اُگائی جائیں، اس حوالے سے بہت کم آپشنز دستیاب ہیں اور جو دستیاب ہیں انہیں اُگانے کے اخراجات صرف امیر کاشتکار ہی اٹھا سکتے ہیں۔ اگرچہ گندم اُگانے والے چھوٹے اور درمیانے درجے کے فارمز کا تناسب 80 فیصد سے زیادہ ہے لیکن سب سے بڑے فارمز کے لیے یہ تناسب 60 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔
ہمارے پالیسی ساز گندم کی قیمتوں میں، ’سپلائی میں عدم توازن‘ کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ شہر میں تندور کی دکانوں میں سستی روٹی کی دستیابی خبروں کے لیے اچھی شہ سرخی ہے اور اس سے لگتا ہے کہ حکومت غریب طبقے کے لیے مخلص ہے لیکن اس سے اس حقیقت پر پردا پڑ جاتا ہے کہ دیہاتوں کو اس سستی روٹی کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جوکہ گندم کے اصل کاشتکار ہیں۔ مہنگائی اور پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث 2014ء سے 2019ء تک گندم کی قیمت 1300 روپے فی 40 کلوگرام پر برقرار رہی۔ جنوری 2020ء میں آٹے کی قلت اور مکمل بحران پیدا ہونے تک ہمارے پالیسی ساز یونہی ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے۔
پالیسی سازوں کی عدم توجہی کو اب ایک نیا بہانہ مل گیا ہے اور وہ ہے عالمی مارکیٹ کی قیمتیں۔ پرانے طریقے استعمال کرنے کی وجہ سے اکثر ہمارے کسانوں کی سرزش ہوتی ہے کیونکہ دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ رقم خرچ کرکے بھی کم پیداوار حاصل ہورہی ہے۔ یہ بیانیہ کچھ حقائق کو نظرانداز کرکے بنایا گیا ہے۔ سرپلس پیدا کرنے والے ملک آسٹریلیا میں گندم کے بڑے فارمز کا اوسط رقبہ 11 ہزار 660 ایکڑ ہے جبکہ پاکستان میں گندم کے سب سے بڑے فارم کا اوسط رقبہ 93 ایکڑ ہے۔
2022ء میں کی گئی زرعی مردم شماری میں سامنے آیا کہ امریکا میں گندم کے کُل 97 ہزار 14 گندم کے فارمز ہیں۔ روس میں گندم پیدا کرنے والے فارمز کی تعداد کا تخمینہ صرف 20 ہزار ہے۔ پاکستان میں گندم کے کاشتکاروں کی تعداد تقریباً 70 لاکھ ہے۔ کیا ہم اپنی زراعت کا ان ترقی یافتہ ممالک سے موازنا کرسکتے ہیں؟
تاہم ہماری موجودہ زرعی پالیسی، فری مارکیٹ کے اصولوں پر عمل پیرا ہے۔ 2023ء میں روس-یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد عالمی سطح پر گندم کی قلت کا خدشہ تھا جس کی وجہ سے گندم کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی تھیں۔ حکومت نے گندم کی قیمت میں ریکارڈ 77 فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا جس پر کسانوں نے ردعمل دیا اور ملک کو کسی طرح کے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
خوش قسمتی سے قیمتوں میں اضافے کے خدشات غلط ثابت ہوئے اور حالیہ سیزن کی آمد سے پہلے ہی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی۔ حکومت نے غیر ملکی کاشتکاروں کو مناسب موقع دینے کی اپنی پالیسی جاری رکھی اور سستی درآمدات کے ذریعے اپنے اسٹریٹجک ذخائر میں اضافہ کیا۔ اس وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں گندم کی قیمت 225 ڈالرز فی ٹن ہے جوکہ 2 ہزار 500 روپے فی 40 کلو گرام کے برابر ہے۔
پنجاب حکومت کے ادارے کروپ رپورٹنگ سروس نے اندازہ لگایا ہے کہ حالیہ سیزن میں 40 کلو کی گندم کی پیداوار میں 3 ہزار 280 روپے کے اخراجات آرہے ہیں۔ اگر کسان اپنی گندم کو 3 ہزار 900 روپے کی سرکاری قیمت پر فروخت کرتے ہیں تو اوسطاً 4 ایکڑ پر فصل اگانے والے کسان 6 ماہ کی فصل سے تقریباً 14 ہزار 14 روپے ماہانہ کمائیں گے۔ (حکومتِ پنجاب نے ستمبر 2023ء میں مزدوروں کی کم سے کم تنخواہ 25 ہزار سے بڑھا کر 32 ہزار روپے کردی ہے)۔
لاگت کے یہ تخمینہ سرکاری قیمت کے مطابق ہے جن پر کسانوں کو اعتراض ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ زمین کا کرایہ اور کھاد کی قیمتیں حکومت کی رپورٹس میں درج اعداد سے 50 فیصد زیادہ ہیں۔ مارکیٹ کسانوں کو بھی 3 ہزار روپے میں 40 کلو آٹا فراہم کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔ کیا حکومت نجی خریداروں کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ کسانوں کو زیادہ قیمت ادا کریں، خاص طور پر اس صورت میں کہ جب وہ خود کم قیمت پر گندم کا ذخیرہ درآمد کررہی ہے؟
سیاسی نقطہ نظر کو ایک جانب رکھیں تو حکومت نے فری مارکیٹ کے نام پر کسانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ کسانوں کو اپنے خاندان کو خوراک کی فراہمی میں متعدد چینلجز درپیش ہیں۔ ایسا کوئی راستہ نہیں کہ غذائی تحفظ کو حکومتی پالیسیوں میں شامل کیے بغیر ان چیلنجز سے نمٹا جاسکے۔
18ویں صدی میں اپنے محل کے باہر کسانوں کے مظاہروں سے ہونے والے شور سے پریشان ہوکر فرانسیسی ملکہ نے کہا تھا کہ بریڈ نہیں تو ’انہیں کیک کھلائیں‘۔ دو صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد لوگوں کو امید ہے کہ جمہوری حکمرانوں کے پاس بہتر پالیسی تجاویز ہوں گی۔ انہیں اب تک یہ احساس ہوجانا چاہیے کہ کیک بھی اسی گندم سے بنتا ہے جو ہمارے کاشتکار اُگاتے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر TahirMehdiZ@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔