کاروبار

قرضوں اور گرانٹس کی مد میں 11ارب 30کروڑ ڈالر موصول

پاکستان نے رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ (جولائی تا اپریل) تک قرضوں اور گرانٹس کی مد میں صرف 11 ارب 30 کروڑ ڈالر وصول کیے ہیں، جو 17 ارب 40 کروڑ کے سالانہ ہدف سے بہت دور ہے

پاکستان نے رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ (جولائی تا اپریل) تک قرضوں اور گرانٹس کی مد میں صرف 11 ارب 30 کروڑ ڈالر وصول کیے ہیں، جو 17 ارب 40 کروڑ کے سالانہ ہدف سے بہت دور ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت اقتصادی امور کی جانب سے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ 23 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کے غیر ملکی قرضے ملے جو مارچ میں 20 کروڑ 40 لاکھ ڈالر اور فروری میں 31 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تھے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ قرض لینے کے محدود مواقع ہونے کے باوجود حکومت مالی سال 24 کے پہلے 10 مہینوں میں غیر ملکی اقتصادی امداد (ایف ای اے) میں تقریباً 7 ارب 14 کروڑ 20 لاکھ ڈالر حاصل کرسکتی ہے، جو سالانہ بجٹ ہدف کا تقریباً 41 فیصد ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی حمایت کے باوجود عالمی مالیاتی منڈیوں میں خراب کریڈٹ ریٹنگ اور منفی حالات اس کی بنیادی وجوہات میں شامل ہے۔

یہ ایف ای اے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے تحت آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کیے گئے 3 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے ایک ارب ڈالر کے علاوہ ہے، جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے الگ سے شمار کیا ہے۔

اس طرح آئی ایم ایف اور یو اے ای سمیت کل بیرونی رقوم 10 ماہ میں 11 ارب 24 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں ار یہ عام طور پر پورے سال کے ٹارگٹڈ انفلوز کا تقریباً 65 فیصد بنتا ہے۔

تاہم، حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ بہتر قرض اور تجارتی انتظامات نے رواں سال کی غیر ملکی امداد کی ضروریات کو کم کر دیا ہے، اس طرح اب اس کا ہدف عارضی طور پر ایف ای اے کے لیے 24-2023 کے بجٹ میں مقرر کردہ 17 ارب 62 کروڑ ڈالر کے بجائے تقریباً 11 ارب ڈالر کردیا گیا۔

حکام نے پیش گوئی کی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 6 ارب ڈالر کے بجٹ کے تخمینہ کے بجائے تقریباً 2 ارب ڈالر ہوگا۔

اپریل کے لیے اپنی ماہانہ ایف ای اے رپورٹ میں ایم ای اے نے کہا کہ رواں مالی سال میں جولائی تا اپریل کے دوران 7 ارب 40 کروڑ 20 لاکھ ڈالر حاصل کیے، جب کہ سالانہ ہدف 17 ارب 62 کروڑ ڈالر تھا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیرونی رقوم گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے 8 ارب 12 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 12 فیصد سے زیادہ کم تھیں، جو کہ دوسری صورت میں آئی ایم ایف کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کے پیش نظر ایک مشکل دور تھا۔

لہذا، پاکستان کو بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹوں میں زیادہ شرح سود اور ملک کی کم کریڈٹ ریٹنگ کی وجہ سے ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کے یورو بانڈ کا منصوبہ موخر کرنا پڑا۔

ای اے ڈی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ تازہ بانڈز میں ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کے علاوہ، حکومت نے رواں مالی سال کے لیے غیر ملکی تجارتی قرضوں میں مزید 4 ارب 50 کروڑ ڈالر کا بجٹ بھی رکھا ہے۔

اپریل میں ای اے ڈی کی جانب سے ریکارڈ کی گئی کل آمد مارچ میں 20 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 23 کروڑ 70 لاکھ ڈالر رہی، جب کہ یہی رقم جنوری، فروری میں 33 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہی، اور دسمبر میں ایک ارب 62 کروڑ ڈالر رہی۔

واضح رہے کہ دسمبر 2023 میں تین بڑے اداروں کی جانب سے قرض کی مد میں بڑی رقوم موصول ہوئیں، جس میں عالمی بینک کی جانب سے 63 کروڑ 80 لاکھ ڈالر، ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے 46 کروڑ 90 لاکھ ڈالر اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) کی جانب سے 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر شامل تھے۔

اکتوبر میں ملک کو 31 کروڑ 80 لاکھ ڈالر اور ستمبر میں 32 کروڑ 10 لاکھ ڈالر موصول ہوئے۔ پہلے 10 مہینوں کے دوران ایف ای اے جولائی 2023 میں 2 ارب 89 کروڑ ڈالر رہے، جب پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے قلیل مدتی پروگرام کے لیے معاہدہ کیا اور پھر اپریل میں ایک ارب 34 کروڑ ڈالر، جب آئی ایم ایف نے 29 اپریل کو اپنی آخری ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی قسط جاری کی۔

عجیب بات یہ ہے کہ ای اے ڈی نے گزشتہ مالی سال میں آئی ایم ایف سے ایک ارب 16 کروڑ ڈالر کی وصولی کو اس کے ایف ای اے میں شامل کیا تھا لیکن اس سال اسی طرح کے 3 ارب ڈالر کی آمد کو ظاہر نہیں کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ای اے ڈی نے گزشتہ سال آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا تھا لیکن سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے جانے کے فوراً بعد یہ پروگرام پٹری سے اترگیا تھا اور صرف ایک ارب 16 کروڑ ڈالر ہی حاصل ہوسکے۔

انڈس موٹر نے ٹویوٹا یارس فیس لفٹ کی قیمتوں میں اضافہ کردیا

سی پیک کے دوسرے مرحلے کا باضابطہ آغاز، وزیراعظم جون میں چین کا دورہ کریں گے

ڈی چوک میں 2 افراد کو کچلنے والا شخص ملٹری پولیس کے حوالے