پاکستان

فوجداری کیس گواہوں پر جرح کیے بغیر کیسے ختم ہوسکتا ہے؟ عدالت

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے عمران خان، شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی سماعت کی۔
|

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس پر سماعت کے دوران عدالت نے دریافت کیا کہ فوجداری کیس گواہوں پر جرح کیے بغیر کیس کیسے ختم ہوسکتا ہے؟

ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی، وفاقی تحقیقاتی بیورو (ایف آئی اے) پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی اور عمران خان کے وکیل سلمان صفدر، تیمور ملک عدالت میں پیش ہوئے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ والدہ کی طبیعت ناسازی کے باعث آج بھی پیش نا ہوسکے۔

دوران سماعت سائفر کیس میں تعینات سرکاری وکیل کی جانب سے عدالت کو بیان حلفی جمع کرائی گئی، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا 2 سرکاری وکیلوں نے پھانسی یا عمر قید جیسے سزاؤں کے کیسز کبھی سنے ہیں؟ اسٹیٹ کونسل حضرت یونس نے جواب دیا کہ میں نے سرکاری وکیل کی حیثیت سے نہیں سنے بلکہ پریکٹس میں سنے ہیں۔

بعد ازاں ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے دلائل کا آغاز کردیا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کے وکلا کا موقف ہے کہ دفاع کا حق نہیں دیا، انہوں نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ ہم نے پوچھا تھا کہ آپ ٹرائل کا دفاع کررہے ہیں؟ پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے جواب دیا کہ جی ہم ٹرائل کا دفاع کررہے ہیں۔

سلمان صفدر نے دلائل کے ذریعے شواہد کو کمزور کیا، عدالت

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ سلمان صفدر نے دلائل کے ذریعے شواہد کو کمزور کیا ہے ، آپ کہہ رہے ہیں کہ ٹرائل ٹھیک نہیں ہوا تو ریمانڈ بیک ہونا چاہیے،آپ دلائل دیں تاکہ آپ نے اپنا جو کیس تیار کیا ہوا ہے وہ تو پتا لگے، اگر آپ میرٹس پر دلائل نہیں دینا چاہ رہے تو آپ کی مرضی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ٹرائل ٹھیک نہیں تو ریمانڈ بیک کریں؟ اگر آپ یہی کہہ رہے ہیں تو پھر عدالت کو بھی مطمئن کریں، ہم نے فیصلہ کرنا ہے، ہم آپ کے تمام دستاویزات کو دیکھ کر جائزہ لیں گے، آپ نے جیسے بھی دلائل دینے ہیں آپ شروع کریں۔

پراسیکیوٹر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ 17 اکتوبر 2023 کو سائفر کیس کا پہلا راؤنڈ ہوا، جس میں 9 سماعتیں ہوئیں، دوسرے راؤنڈ میں 19 سماعتیں ہوئیں، وکیل صفائی نے 7 بار التوا کیا، تیسرے راؤنڈ میں 11 سماعتیں ہوئیں اور 4 التوا کرائی گئی، تیسرے راؤنڈ میں وکیل صفائی نے 7 گواہوں پر جرح بھی کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 15، 16، 18، 24، 25، 27، 29 جنوری تک شواہد پیش کیے گئے مگر جرح نہیں ہوئی، ملزمان کی جانب سے بار بار تاخیری حربے استعمال کیے جاتے رہے، گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے تھے مگر جرح نہ ہوسکی تھی، کورٹ کی سماعتوں میں وقت پر نہیں آتے تھے، ٹرائل کے دوران 55 مختلف درخواستیں دی گئیں۔

عدالت نے دریافت کیا کہ تیسرے مرحلے میں کتنی درخواستیں دائر ہوئیں؟ پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے بتایا کہ 50 فیصد درخواستیں تیسرے مرحلے میں دائر ہوئی تھیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل کورٹ یا ڈسٹرکٹ کے پاس ٹرائل سے متعلق جگہ کی تبدیلی کا اختیار ہے؟ کیا ٹرائل کورٹ یا ڈسٹرکٹ کورٹس اپنے اوقات کار سے آگے کیس سن سکتی ہیں؟ وکیل عمران خان نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ یا ڈسٹرکٹ کورٹس کے پاس اوقات کار سے آگے کیس سننے کا اختیار نہیں، ہم نے آج تک کبھی نہ سنا اور دیکھا کہ ٹرائل کورٹ اوقات کار سے آگے کام کرتی ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ٹرائل کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹس اوقات کار سے آگے نہیں جاسکتیں، اگر عدالت 3 بجے شروع ہو اور 4 بجے چھٹی ہو تو وہی 4 بجے چھٹی ہوگی، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کا الگ حساب ہے، ٹرائل کورٹ میں ایسا تو نہیں ہوتا۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے اہنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ وکیل صفائی کی جانب سے مختلف اوقات میں مختلف درخواستیں دائر کی گئی ہیں، عدالت منتقلی، وکیل کی تبدیلی، ضمانت، موسم سرما کی چھٹیوں، فئیر ٹرائل سمیت مختلف درخواستیں دائر کردی گئی۔

عدالت نے دریافت کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ 10 اے کی بہت ساری درخواستیں آئی ہیں؟ ، پراسیکیوٹر نے وکیل صفائی کے طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تو کیس کو چلنے ہی نہیں دیا۔

پراسیکوٹر نے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب سے مکالمہ کیا کہ آپ ہی کا فیصلہ تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے میں کوئی قدغن نہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ کے پاس زیر سماعت کیسز اتنے زیادہ ہیں تو اس کیس میں کیا خاص تھا جو روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے بتایا کہ اس کیس کی اہمیت اسی لیے زیادہ تھی کیونکہ ایک سابق وزیراعظم کے خلاف یہ کیس تھا، ٹرائل میں کوئی مسئلہ نہیں تھا، ٹرائل فئیر ہوا ہے، ملزمان کی جانب سے مختلف اوقات میں ٹرائل میں تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ایک درخواست جو دائر کردی گئی وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے موسم سرما کی تعطیلات پر ہی کی گئی، کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھٹیوں کا نوٹیفکیشن سیشن کورٹ پر لاگو نہیں ہوتا؟ کیا جج صاحب نے یہ نہیں سمجھا کہ ان کو موسم سرما کی تعطیلات کرنی ہیں؟

پراسیکیوٹر نے بتایا کہ سیشن کورٹ میں ایک جج چھٹی پر جاتے ہیں تو دوسرے جج نے ڈیوٹی کرنی ہوتی ہے، اسپیشل کورٹس کے حوالے سے رولز مختلف ہیں، ہائی کورٹ رولز 4 میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص جیل میں ہو تو وہاں جیل ٹرائل ہوسکتا ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید کہا کہ کاش یہ رولز کچھ مخصوص حالات کے لیے ہوتے، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جیل ٹرائل سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ رولز کے مطابق ہوا ہے، پورے ٹرائل میں ملزمان کی جانب سے تاخیر کی گئی، کب کب کیسے تاخیری حربوں کا استعمال کیا گیا، ریکارڈ موجود ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فیصلے کے وقت دونوں ملزمان عمران خان اور شاہ محمود قریشی کمرہ عدالت میں موجود تھے، دونوں ملزمان کو سرکاری وکلا فراہم کیے گئے مگر انہوں نے انکار کیا۔

عدالت نے پراسیکیوٹر کو ہدایت دی کہ نقوی صاحب آپ ہمیں یہ تمام دستاویزات ایک لسٹ کی شکل میں دیں، پراسیکیوٹر نے کہا کہ کچھ عدالتی فیصلے دیے ہوئے ہیں، اور سب کو ہائی لائٹ کیا ہوا ہے، پراسیکوٹر نے پاکستانی اور بھارتی عدالتی فیصلوں کے حوالے بھی دیے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملزمان کی جانب سے مسلسل تاخیری حربے استعمال کیے جاتے رہے؟ آپ بتا رہے ہیں کہ اسٹیٹ کونسلز کی تعیناتی کا ٹرائل کورٹ کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ سرکاری وکیل کی تعیناتی کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔

اس موقع پر عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ آدھے گھنٹے کی بات ہوئی تھی، میں نے بھی دلائل دینے تھے، اسٹیٹ کونسلز کی تعیناتی کی بجائے ایڈووکیٹ جنرل خود کیوں نہیں گئے؟ سرکاری وکلا وہاں ہماری طرف سے پیش ہوئے، تو یہاں پراسیکوشن کی طرف کھڑے ہیں۔

بعد ازاں سلمان صفدر نے پراسیکیوٹر کے لمبے دلائل پر اعتراض اٹھا دیا۔

عدالت نے کہا کہ سلمان صاحب ہمیں کرنے دیں، انہوں نے تو سماعت ملتوی کی درخواست کی تھی، ہم نے آنکھیں بند کرکے کسی کی درخواست پر سماعت ملتوی نہیں کرنی تھی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ پراسیکیوٹر صاحب کو دلائل دینے دیں اور درمیان میں مداخلت نہ کریں۔

پراسیکیوٹر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ لطیف کھوسہ صاحب شاہ محمود قریشی کے وکیل تھے مگر وہ آتے ہی نہیں تھے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کھوسہ صاحب کیوں نہیں آتے تھے؟ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ کھوسہ صاحب نے پہلے وکالت نامہ جمع کیا اور پھر کہا میں وکیل نہیں ہوں، میں اگر یہاں بتاؤ تو ہر دوسرے روز بعد نیا وکالت نامہ آتا تھا، عدالت نے وکیل صفائی کو گواہوں پر جرح کرنے کا موقع دیا تھا، ملزمان کے وکلا تاخیری حربوں کے علاوہ کیس میں دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فوجداری کیس میں گواہوں پر جرح کیے بغیر کیس کیسے ختم ہوسکتا ہے؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزمان کو سرکاری وکلا دیے تھے اور انہوں نے ہی جرح کرلی تھی، ملزمان کے وکلا جرح کرنا چاہتے تو ان کے پاس مواقع تھے۔

عدالت نے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ سرکاری وکیل کی تعیناتی صرف اسی وجہ سے ہوئی کہ تاخیری حربے استعمال کیے جاتے تھے؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ جہاں پروسیجر صحیح نہیں ہوا تو ریمانڈ بیک کیا جائے گا تاکہ فئیر ٹرائل ہو؟ اور آگر عدالت مطمئن نہ ہو تو پھر میرٹ پر فیصلہ کریگی؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پراسیکوٹر کو ہدایت دی کہ ججمنٹ پڑھنے کے بجائے آپ ہمیں ٹائٹل نوٹ کرائیں۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگلی تاریخ دیں، میرٹ پر دلائل ہوں گے تو ممکن ہو شاہ صاحب آجائیں، سلمان صفدر نے کہا کہ پلیز آج ہی ختم کردیں ، میں نے بھی جواب الجواب دینا ہے، ایڈووکیٹ جنرل نے استدعا کی کہ مجھے بھی دلائل کے لیے پانچ، دس منٹ چاہیے۔

عدالت نے درافت کیا کہ نقوی صاحب آپ ہمیں اپنا پلان بتائے کہ آپ مزید کتنا وقت لینا چاہتے ہیں؟ یہ پبلک ٹائم ہے، ہم نے فیصلے لکھنے ہوتے ہیں، ابھی آپ کہتے ہیں اگلے ہفتے تک ملتوی کریں، آپ کو کل کتنا وقت چاہیے؟ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ مجھے مزید دلائل کے لیے ایک گھنٹے درکار ہوگا، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایک گھنٹہ مطلب ایک گھنٹہ، ہم گھڑی کے حساب سے دیکھیں گے۔

اس پر ع،ران خان کے وکیل نے کہا کہ پیر کو ہم دونوں کو 45 ، 45 منٹ دے دیں تاکہ ہم دونوں کام کو ختم کریں۔

اس موقع پر عدالت نے پراسیکوٹر کو آئندہ ہفتے ایک گھنٹے میں دلائل مکمل ہونے کی ہدایت کردی، عدالت نے بیرسٹر سلمان صفدر کو بھی 45 منٹ میں جواب الجواب مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ بدھ کے روز ہم کوشش کریں گے کہ نارمل ڈویژن بینچ نہ ہو۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس تعینات دونوں اسٹیٹ کونسلز کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں 6 مئی کو سائفر کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی تھی۔

2 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 6 مئی تک ملتوی کردی تھی جس دوران عدالت نے دریافت کیا کہ کیا وکیل کی عدم موجودگی میں ملزم کے دفاع کے بیان کی اہمیت کم ہو جائے گی؟

گزشتہ سماعت کے دوران سائفر کیس میں ایک نیا موڑ سامنے آیا تھا جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ خفیہ کیبلز یا سفارتی مراسلہ سابق وزیراعظم عمران خان کے قبضے میں تھا اور وہ ان کے قبضے سے غائب ہوگیا۔

اس سے قبل 22 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ یہ فوجداری مقدمہ ہے، شک کا معمولی سا فائدہ بھی ملزمان کو ہی جائے گا۔

واضح رہے کہ 17 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی تھی، سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا تھا کہ وزارت خارجہ کی جگہ داخلہ نے کیوں شکایت درج کرائی؟

واضح رہے کہ اس سے گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل بانی پی ٹی آئی سے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اعظم خان جو اسٹار گواہ ہیں، ان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟

واضح رہے کہ 4 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جو سیکشن لگائے گئے اور سزا سنائی گئی اس سے تو شاہ محمود قریشی کا تعلق ہی کوئی نہیں۔

اس سے قبل 2 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماع ملتوی ہوگئی تھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ جب کوڈڈ پیغام کو ڈی کوڈ کر کے کاپی بنائی جائے تو وہ بھی سائفر ہی رہے گا؟

یاد رہے کہ اس سے قبل ہونے والی سماعت میں بھی سلمان صفدر نے بتایا تھا کہ سائفر کی کہانی عدم اعتماد کے بعد شروع ہوئی تھی۔

28 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 2 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا سائفر کو ڈی کوڈ نہیں کیا گیا؟

20 مارچ کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کی خلاف اپیلوں پرچیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟

19 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل جواب طلب کرلیا تھا۔

13 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت اور سزا معطلی کی اپیلوں پر میرٹ پر دلائل سننے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

11 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی کے وکلا سے دلائل طلب کرلیے ۔

26 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں بانی تحریک انصاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کو نوٹس جاری کر دیا۔

16 فروری کو پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے سائفر، توشہ خانہ اور نکاح کیسز میں سنائی گئی سزاؤں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا۔

اس سے قبل سماعت میں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے سزا کے خلاف اپیلوں پر دلائل کا آغاز کردیا جبکہ عدالت نے فریقین کو 11 مارچ مکمل تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کردی تھی۔

واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

سائفر کیس

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

ایجنسیوں کو سیاست میں ملوث ہونے کے بجائے اپنا پیشہ ورانہ کام کرنا چاہیے، عمر ایوب

رؤف حسن پر حملے کی تفتیش میں پیشرفت، اسلام آباد پولیس کے خواجہ سراؤں سے بھی رابطے

ٹی 20 ورلڈکپ: سندیپ لامیچانے کو تاحال ویزا نہ مل سکا