پاکستان

مولانا فضل الرحمٰن نے مشترکہ جدوجہد کے لیے تحریک انصاف سے گارنٹی مانگ لی

تحریک انصاف کے تین رکنی وفد کی جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ سے ملاقات، چاہتے ہیں سیاسی ماحول میں رابطے بڑھتے چلے جائیں، فضل الرحمٰن

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شمولیت اور مشترکہ جدوجہد کے لیے پاکستان تحریک انصاف سے گارنٹی مانگنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے وفد سے ملاقات کا مقصد تعلقات میں بہتری اور تلخیوں کو دور کرنا ہے اور ہمیں ملک کے اندر خوشگوار سیاسی ماحول کی طرف بڑھنا چاہیے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب، اسد قیصر اور ساجد ترین پر مشتمل تحریک انصاف کے وفد نے اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی جس میں ملک کی موجودہ صورتحال، 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات سمیت مختلف امور پر گفتگو کی گئی۔

بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن نے پی ٹی آئی کے وفد کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی وفد کی سوچ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان رابطے رہیں اور ملکی مسائل پر مشترکہ موقف اختیار کرنے کے لیے سیاسی ماحول بھی موجود ہے اور ہمارا اس سوچ سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی ماحول میں رابطے بڑھتے چلے جائیں، تعلقات میں بہتری اور تلخیوں کو دور کرنا ہمارا مقصد ہے اور ہم اس جذبے کو خوش آمدید کہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آئین پاکستان کی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے، پارلیمنٹ کی اہمیت ختم ہو چکی ہے، جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن گزشتہ 10-15 سالوں سے چل رہا ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گردی میں دسیوں گنا اضافہ ہوا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ یہ کیا حکمت عملی ہے کہ بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود وہ عام آدمی کو امن فراہم نہیں کر سکے اور حال ہی میں چند دنوں پہلے جنوبی وزیرستان میں پاکستان کی طرف سے ڈرون حملہ کر کے عام شہریوں کو شہید کیا گیا اور اس کا اعتراف بھی کیا، غلطی مانی، منصوبہ بندی کے بغیر اندھا دھند آپریشن جو عام آدمی کی زندگیوں کو غیرمحفوظ بنا دیتا ہے وہ ہمارے لیے کبھی بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ چمن بارڈر پر چھ سات ماہ سے دھرنا جاری ہے، یہاں سے احکامات جانے کے بعد وہاں جو قدغنیں لگائی جاتی ہیں، ان سے وہاں کی مقامی آبادی کا روزگار تباہ ہو گیا ہے، کوئی متبادل روزگار بھی نہیں دیا جا رہا اور بے ہنگم قسم کی شرائط عائد کر کے کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی عزت اور وقار ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب یہ معاملہ آگے بڑھ گیا ہے، جنوبی وزیرستان کے علاقے انگور اڈہ میں لوگ نکل آئے ہیں، وہ اپنی زندگی اور روزگار چاہتے ہیں اور ان کو کوئی متبادل نظام نہیں دیا جا رہا، جمرود میں بھی لوگ نکل آئے ہیں کیونکہ وہاں بھی قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے ملک کی صورتحال ہے جس پر ہمارا فکرمند ہونا فطری عمل ہے اور اس حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ جو بھی ہمارے مشترکات ہیں اس پر پارلیمنٹ کے اندر ہماری آواز ایک ہونی چاہیے اور ملک کے اندر بھی ہمیں خوشگوار سیاسی ماحول کی طرف بڑھنا چاہیے، اگر ہم اختلاف کو ختم نہیں کر سکتے تو انہیں نرم تو کر سکتے ہیں، کچھ ترجیحات ایسی ہوتی ہیں جن کے لیے دوسری ترجیحات کو معطل کرنا پڑتا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ یہ بہتری کی طرف جانے کا سفر ہے جس کے حوالے سے ہمارے مہمان تشریف لائے ہیں جنہیں میں خوش آمدید کہتا ہوں۔

اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ ہماری مولانا فضل الرحمٰن سے بہت مفید گفت و شنید ہوئی، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے ہم یہ چاہتے ہیں کہ جے یو آئی (ف) سمیت ہماری جتنی پارٹیاں ہیں، وہ پاکستان میں آئین و قانون کی پاسداری کے لیے ہماری یہ جدوجہد چلتی جائے اور یہی میرے قائد عمران خان اور تحریک کے قائد محمود خان اچکزئی کی بھی خواہش ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں آئین نامی کوئی چیز نہیں ہے، آج ہمارے حماد اظہر اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر میں آئے جس کے بعد اسلام آباد پولیس نے وہاں دھاوا بول دیا جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، پولیس رؤف حسن کے حملہ آوروں کو ڈھونڈنے کے بجائے بے قصور لوگوں کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چمن میں دھرنا دینے والوں کے مطالبات جائز ہیں جن پر حکومت کو ضرور نظرثانی کرنی چاہیے، وہاں مہارنگ بلوچ کی پریس کانفرنس ہونی تھی تو پریس کلب کو سیل کردیا، وہاں اظہار رائے کی اجازت ہونی چاہیے، ان اقدامات سے ملک مضبوط نہیں ہوتا بلکہ اس کی جڑیں کمزور ہوتی ہیں۔

اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے ہم تمام طبقوں کو ایک ہونا پڑے گا، اس وقت ملک میں کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک اس طرح نہیں چلائے جاتے کہ آپ کسی قانون کو ہی خاطر میں نہ لائیں، جو رؤف حسن کے ساتھ ہوا کیا وہ کسی ایسے ملک میں ہو سکتا ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہو، یہ تو واضح پیغام دے رہے ہیں کہ اس ملک میں طاقت اور جنگل کا قانون ہے۔

جب مولانا فضل الرحمٰن سے سوال کیا گیا کہ کیا پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) کے درمیان مشترکہ جدوجہد پر اتفاق ہو گیا ہے، تو جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا کہ آپ کا سوال خود بتا رہا ہے کہ ابھی خیرسگالی کا ماحول بنانا ہے۔

حکومت کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم اس وقت کس پر اعتماد کریں، بات چیت تو اس وقت کی جاتی ہے جب اعتماد ہو، جب ایک زبان ہو اور بات چیت کون کرے گا، وزیراعظم کرے گا، صدر مملکت کرے گا، آرمی چیف کرے گا، ابھی تو یہ معلوم نہیں کہ کون بات چیت کرے گا اور کس کے ساتھ کرے گا۔

ایک اور سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ تحریک انصاف کی جانب سے ہمیں منانے کا سلسلہ جاری ہے۔

جب ان سے مزید سوال کیا گیا کہ رابطے بڑھانے کے لیے آپ کی جانب سے پی ٹی آئی سے کوئی گارنٹی مانگی گئی ہے تو اس پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ظاہر ہے کہ جب ہم سنجیدہ اور متنازع امور پر کوئی بات طے کرنا چاہتے ہیں تو ماحول بنانا پڑتا ہے، اس کو آپ اسی کا حصہ سمجھیں۔

اس مرحلے پر اسد قیصر نے کہا کہ ہم یہاں دو چیزوں کو سپورٹ کرنے آئے ہیں، عدلیہ کے خلاف جاری مہم اور سینیٹ میں ہونے والے گفتگو کی ہم مذمت کرتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں یہ عدلیہ پر حملہ ہے اور یہ سپریم کورٹ کی سماعتوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے سب ہو رہا ہے، ہم اپنے ججوں کے ساتھ ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ میرٹ کے مطابق فیصلے کریں گے۔