نقطہ نظر

’موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اب آم کی پیداوار میں واضح نظر آرہے ہیں‘

محققین کے مطابق وہ مالکان جو اپنے باغات کو آؤٹ سورس کرنے کے بجائے خود سنبھالتے ہیں، وہ ہمیشہ کیڑوں پر قابو پالیتے ہیں۔

پھلوں کے بادشاہ آم کا انتظار اب ختم ہونے کو ہے بالخصوص مزیدار سندھڑی آم جون کے پہلے ہفتے میں مارکیٹس میں دستیاب ہوں گے۔ موسمِ گرما کی خصوصیت مزیدار آم، اس کے مختلف رنگ اور اقسام کا لوگوں کو انتظار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جون میں زیادہ تر باغات میں درختوں سے آم اتارنے کے عمل کا آغاز ہوجاتا ہے جبکہ کچھ باغات مئی کے تیسرے ہفتے میں ہی اس عمل کو شروع کردیتے ہیں تاکہ جلد از جلد آموں کو مارکیٹ میں پہنچا کر فائدہ اٹھایا جاسکے۔

اس سال آم کی فصل کافی اچھی اور خوش شکل ہے۔ تاہم باغات اور آم کی پیداواری رپورٹس کے مطابق ٹنڈو الہٰ یار اور میرپورخاص جیسے علاقوں میں موسمی کیڑوں جیسے ٹڈوں اور تھرپس نے آم کی کچھ فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے، جہاں آم کی فصل میں خرابی دیکھنے میں آئی ہے۔

محققین کے مطابق وہ مالکان جو اپنے باغات کو آؤٹ سورس کرنے کے بجائے خود سنبھالتے ہیں، وہ ہمیشہ کیڑوں پر قابو پالیتے ہیں۔ تاہم وہ ٹھیکیدار جو فصل کی فروخت کے لیے سالانہ بنیادوں پر باغات کو سنبھالتے ہیں، وہ ان معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور یوں مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔

میرپورخاص میں سندھ ہارٹیکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس ایچ آر آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ولی محمد بلوچ کہتے ہیں کہ ’آم کے درختوں کو کیڑوں سے بچانے کے لیے اس کی شاخوں کی کٹائی کرنا ہوتی ہے، اگر لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جائے تو کیڑے لگ جاتے ہیں‘۔

انہوں نے موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل کو خرابی کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’فصل کافی اچھی اور بڑی ہے جبکہ ہمیں پھل کی صحت پر کوئی منفی اثر دیکھنے کو نہیں ملا۔

’اگرچہ مارچ میں موسم سرما ختم ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی آسمان پر بادلوں کو غلبہ رہتا ہے جوکہ آم کی افزائش کے لیے موزوں ماحول نہیں۔ سردیوں کی مدت بڑھ جانے کی وجہ سے گرم ہوائیں نہیں چلتی۔ اس سے درختوں کے پھولوں اور پھلوں کو نقصان پہنچتا ہے‘۔

مارچ کے آخر تک آموں کی افزائش کے لیے درکار درجہ حرارت نہیں مل سکا جس کی وجہ سے کونپل پھوٹنے اور پھل بننے میں تاخیر ہوئی۔ موسمِ سرما کی تاخیر سے رخصتی کے اثرات تقریباً تمام مقامات پر ہوئے اور مٹیاری میں آم کی افزائش کرنے والے ندیم شاہ کے مطابق اس سال موسم کی وجہ سے پھل پکنے میں تاخیر ہوئی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’شمال کی جانب سے آنے والی ہواؤں کی وجہ سے میرے باغ میں پھل دیر سے پکے لیکن باغ کے جنوبی حصے میں واقع درختوں کو مطلوبہ گرم درجہ حرارت ملا، اس لیے وہ وقت پر پک گئے۔ میرے لیے یہ بہت عجیب تھا‘۔

آم سب سے پہلے سندھ کے مشرقی علاقے جھڈو اور نوکٹ میں پکنا شروع ہوتے ہیں۔ یہ علاقے تھرپارکر صحرائی خطے سے متصل میر پور خاص ضلع کے پاس واقع ہیں۔ خاص طور پر موسم کے آغاز میں سرولی، الماس، دسہری اور لنگڑا آموں کو درختوں سے اتارا جاتا ہے اور ان کی پنجاب میں ترسیل کی جاتی ہے۔

ٹنڈو جان محمد سے تعلق رکھنے والے کرم اللہ ساند نے کہا کہ ان سے باغ سے 10 کلو دسہری آم کا ڈبہ 900 سے 1100 روپے میں فروخت ہوا جبکہ اعلیٰ معیار کے سندھڑی آم کی 10 کلو کی پیٹی ملتان میں اوسطاً 3500 روپے میں فروخت ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہم سرولی آم اپریل کی 27 سے 28 تاریخ کے آس پاس درختوں سے اتار لیتے ہیں‘۔ اپنے آؤٹ سورس شدہ 275 ایکڑ کے باغ میں کیڑے مار اسپرے بار بار کیے جاتے ہیں لیکن وہ خود کھاد ڈالتے ہیں اور اپنے باغ کو کیڑوں سے محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’موسمِ سرما کی مدت بڑھ جانے سے فصلوں پر ٹڈوں کے حملوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اپریل میں بھی درجہ حرارت نہیں بڑھتا جوکہ غیرمعمولی ہے‘۔

تاہم ٹھیکیدار اور باغ کے مالک رسول بخش میمن کہتے ہیں کہ کچے سرولی اور دسہری کو کراچی کی مارکیٹ میں فروخت کے لیے بھیج دیا جاتا ہے جس نے سندھ میں مارکیٹ کی قیمت کے مطابق اچھا رجحان پیدا نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں، ’10 سے 12 کلو کی دسہری آم کا ڈبہ فیصل آباد میں 1300 روپے کا فروخت ہوتا ہے‘۔

دوسری جانب ٹنڈو والہٰ یار کے علاقے میں سندھ آبادگار بورڈ (ایس اے بی) کے صدر محمود نواز شاہ سمجھتے ہیں کہ آم پکنے سے پہلے کیڑوں کے حملے ایک روایت بن چکے ہیں کیونکہ انہیں اپنے باغ میں بار بار اسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر واقع سندھ کا زیریں ضلع ٹنڈو والہٰ یار اپنی زرخیز زمین اور آم کے بڑے باغات کے لیے جانا جاتا ہے۔ ٹنڈو والہٰ یار میں باغ کے مالک امداد نظامانی کہتے ہیں کہ حیرت انگیز طور پر ٹڈے صرف ٹنڈو والہٰ یار یا میر پور خاص تک محدود ہیں جس کی وجہ جاننے کے لیے تحقیق پر مبنی اقدامات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ باغوں کی زائد عمر کی وجہ سے بھی ان میں کیڑے لگنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں، ’ٹنڈو والہٰ یار ایک سرسبز علاقہ اور سندھڑی آموں کا گھر کہلایا جاتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ کیڑے لگنے کی ممکنہ وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے‘۔

دوسری جانب 20 مئی سے پھلوں کی برآمدات کا آغاز ہوچکا ہے جوکہ گزشتہ سالوں کی نسبت قبل از وقت ہے۔ آم کے کاشتکار کے نقطہِ نظر سے دیکھیں تو اگر معیاری آموں کی برآمدات سے منافع آرہا ہے تو اس سے مقامی مارکیٹ میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر خراب معیار کی وجہ سے اچھی قیمت نہ مل پائے تو اس سے مقامی مارکیٹ میں بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے جہاں پھلوں کی قیمتوں میں کمی واقع ہوگی۔

اس سال برآمدکنندگان نے ایک لاکھ ٹن آموں کی برآمدات کا ہدف طے کیا ہے۔ آل پاکستان فروٹس اینڈ ویجیٹیبلز ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرستِ اعلیٰ عبدالوحید کا ماننا ہے کہ سندھ میں آموں کی پیداوار میں 15 سے 20 فیصد، پنجاب میں 40 سے 45 فیصد کمی واقع ہوگی۔ ملک میں آموں کی مجموعی پیداوار میں پنجاب 70 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اب آم کی پیداوار میں زیادہ واضح ہورہے ہیں۔

عبدالوحید نے کہا کہ ’اگر پھل کا معیار متاثر ہوتا ہے تو اس کا مطلب اس کی صحت، ذائقے اور شکل بھی متاثر ہوگی اور یوں اس پھل کی قیمت اچھی نہیں ملے گی‘۔ انہوں نے حکومتی سطح پر تحقیق پر مبنی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا کہ کاشتکاروں کے لیے حل نکالا جائے تاکہ وہ فصلوں پر حملہ کرنے والے کیڑوں سے نمٹ سکیں اور فصل کے لیے حفاظتی اقدامات کر سکیں۔

جون کے پہلے ہفتے میں زیریں سندھ میں سندھڑی آموں کو تیزی سے درختوں سے اتارا جائے گا۔ آم کی یہ قسم خلیجی ممالک اور ایران میں بڑی تعداد میں برآمد ہوتی ہے۔

ایک ترقی پسند کاشتکار غلام سرور ابڑو اپنے ٹھٹہ کے فارم میں گرم پانی سے صفائی کرتے ہیں (جوکہ بہت سے ممالک میں پھلوں کی برآمدات کی شرط ہے) اور وہ اس حوالے سے کاشتکاروں کو بھی ترغیب دیتے ہیں تاکہ وہ منافع کما سکیں۔

تاہم غلام سرور ابڑو اصرار کرتے ہیں کہ ایسا صرف اسی صورت ممکن ہے کہ جب کاشتکار اپنے باغوں کی آؤٹ سورسنگ کے بجائے ان پر بذاتِ خود توجہ دیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کاشتکار پیداور کے مرحلے میں تھوڑی سی سرمایہ کاری اور دیکھ بھال سے ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں‘۔

20 مئی سے ملک سے پھلوں کی برآمدات کا آغاز ہوچکا ہے۔ اگر آم کے کاشتکار کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو اس کے مقامی مارکیٹ پر مثبت اثرات ہوں گے۔ برآمدات شدہ پھلوں کے معیار سے بلاشبہ منافع ملتا ہے۔

اگر معیاری نہ ہونے کی وجہ سے قیمتیں کم ملتی ہیں تو اس سے مقامی مارکیٹ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور قیمتوں میں کمی واقع ہوگی۔ دوسری جانب صارفین یہ امید کرتے ہیں کہ شدید مہنگائی کے اس دور میں وہ کم قیمت پر آم کی سوغات سے لطف اندوز ہوسکیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

محمد حسین خان

لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔