سندھ میں ہیٹ ویو کی پیش گوئی، پانی کی دستیابی سنگین مسئلہ
سندھ میں آج سے ہیٹ ویو کی پیش گوئی سے صوبے میں پانی کی دستیابی سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں درجہ حرارت پہلے ہی 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے، ایسے میں آج سے صوبے میں ہیٹ ویو کی پیش گوئی سے سندھ کے بیشتر علاقوں میں پانی کی دستیابی ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔
طویل لوڈ شیڈنگ نے پہلے ہی دیہی علاقوں میں لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، جب کہ مسلسل اور غیر اعلانیہ بجلی کی بندش سے سکھر اور حیدرآباد کے علاقوں کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
چیف سیکریٹری سندھ آصف حیدر شاہ نے ڈان کو بتایا کہ ہم نے حیدر آباد اور سکھر کے ڈویژنل افسران کو ہدایت دی ہیں کہ وہ اس سلسلے میں حیسکو اور سیپکو سے رابطہ کریں تاکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی لائی جاسکے۔
واٹر اینڈ سینی ٹیشن اتھارٹی (واسا) نے حیدرآباد کے شہریوں کو صاف پانی کی عدم فراہمی کی ذمہ داری بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں پر عائد کردی، حیدرآباد کو گرمیوں میں روزانہ کی بنیاد پر 13 کروڑ گیلن پانی درکار ہوتا ہے۔
واسا حکام نے ڈان کو بتایا کہ حیسکو ہماری درخواست پر عمل نہیں کرتا جس کے سبب ہم حیدرآباد کو روزانہ کی بنیاد پر 7 یا ساڑھے 7 کروڑ گیلن پانی فراہم کرنے کے قابل ہیں اور ان کی باقی ضروریات خام پانی سے پوری کی جاتی ہیں۔
خیال رہے کہ کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے بیشتر علاقوں میں بڑے پیمانے پر فلٹر پلانٹس موجود نہیں ہیں جس سے شہریوں کو صاف پانی فراہم کیا جاسکے۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) سے تعلق رکھنے والے غلام مرتضیٰ نے ڈان کو بتایا کہ شدید گرمی کی صورتحال شہری اداروں کو ’پینک بٹن‘ دبانے پر مجبور کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہیٹ ویو کے حالات پانی کے بخارات کی منتقلی کو بڑھاتے ہیں، جو بیکٹیریا کی افزائش کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے، جب کہ شہری ادارے گرمیوں میں پانی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے رہائشیوں کو گندا پانی فراہم کرنے پر مجبور ہے اور اگر ہم نے اس معاملے پر احتیاط نہ برتی تو صوبے میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے کیسز میں اضافہ ہوگا۔
پی سی آر ڈبلیو آر کے چیئرمین اشرف محمد نے ڈان کو بتایا کہ ہیٹ ویوز کے دوران ڈیموں اور نہروں میں پانی میں بخارات کا اخراج بڑھ جاتا ہے، جس سے پانی کی دستیابی کم ہوتی ہے، ایسی صورتحال میں زمیں میں نمی ختم ہونے لگتی ہے اور فصلوں میں مسلسل آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے جو ممکن نہیں رہتا۔
اس سے ذرعی شعبے کے لیے آبپاشی کے پانی کی دستیابی پر سمجھوتا کرنا پڑے گا، جب کہ تھرپارکر، نگرپارکر، دادو، کاچھو، جامشورو اور کوہستان کے بنجر علاقوں کے کنوؤں سے زیر زمین پانی کے اخراج میں اضافہ ہوگا، جہاں ری چارج ڈیم پہلے ہی ختم ہوچکے ہیں۔