کیا پاکستانی ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ 2024ء کے لیے تیار ہے؟
کیا پاکستانی ٹیم انگلینڈ کے خلاف سیریز میں اچھی کارکردگی دکھا پائے گی؟
کیا پاکستان ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے تیار ہے؟
کیا پاکستانی ٹیم ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل یا فائنل تک پہنچ پائے گی؟
اس وقت اگر کسی پاکستانی کرکٹ فین سے یہ سوالات کیے جائیں تو قوی امکان یہی ہے کہ جواب نفی میں آئے جس کی وجہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حالیہ کارکردگی ہے۔ پاکستانی ٹیم آئرلینڈ میں کھیلی جانے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں 1-2 سے کامیابی کے بعد اس وقت انگلینڈ پہنچ چکی ہے جہاں چار ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کا پہلا میچ 22 مئی کو کھیلا جائے گا۔
اس سال پاکستانی ٹیم نے اب تک 12 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے ہیں جن میں سے 5 میں فتح جبکہ 7 میں شکست کا سامنا کیا۔ لیکن ان پانچ میں سے صرف ایک فتح نیوزی لینڈ کی مضبوط ٹیم کے خلاف حاصل ہوئی جبکہ باقی چار فتوحات نیوزی لینڈ کی بی ٹیم اور آئرلینڈ کے خلاف حاصل ہوئیں۔ نیوزی لینڈ کے 15 سے 20 صف اول کے کھلاڑی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) اور فٹنس مسائل کی وجہ سے پاکستان کے دورے میں شرکت نہیں کرپائے لیکن پاکستانی کی مکمل ٹیم اس بی ٹیم کے خلاف سیریز برابر ہی کر پائی۔ نیوزی لینڈ کے خلاف یہ کارکردگی ہی کم نہ تھی کہ آئرلینڈ کی ٹیم جوکہ پچھلے دو سال سے کئی چھوٹی ٹیموں کے خلاف مشکلات کا شکار رہی ہے، نے پاکستانی ٹیم کو سیریز کے پہلے ہی میچ میں شکست سے دوچار کیا۔
پچھلے چھ ماہ میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے کپتان کی کمان بابر اعظم سے شاہین آفریدی اور پھر بابر اعظم کے پاس واپس پہنچ چکی ہے۔ محمد عامر اور عماد وسیم جو انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے چکے تھے، اپنی ریٹائرمنٹ واپس لے کر ٹیم کے ساتھ ہیں لیکن قومی ٹیم کی کارکردگی بہتر ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
اسکواڈ میں پہلے ہی ٹاپ آرڈر بلے بازوں کی بہتات ہے جبکہ آل راؤنڈرز اور فنشرز بھی ٹاپ آرڈر میں کھیلنے کے خواہش مند ہیں۔ بابر اعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ جوڑی کامیاب تھی، تسلسل سے اسکور بھی بن رہا تھا لیکن اسٹرائیک ریٹ ایک بڑا مسئلہ تھا۔ اسٹرائیک ریٹ کے اس مسئلے کے حل کے لیے صائم ایوب کو اوپنر بنایا گیا، کبھی بابر اعظم اور کبھی محمد رضوان کے ساتھ ان کی اوپننگ جوڑی بنائی گئی۔ ٹیم کا رن ریٹ تو کچھ خاص بہتر نہیں ہوسکا لیکن پہلے چند اوورز میں ہی وکٹ گنوا کر اکثر بابر اعظم اور محمد رضوان پھر ایک ساتھ کریز پر موجود ہوتے ہیں۔
پاور پلے میں اگر اچھا آغاز مل بھی جائے تو درمیانے اوورز میں پاکستانی ٹیم کا رن ریٹ نہ جانے کیوں وکٹ ہاتھ میں ہونے کے باوجود کم ہوجاتا ہے۔ پچھلے دو سال میں ساتویں سے پندرہویں اوور تک پاکستانی ٹیم کا رن ریٹ 7.30 رہتا ہے جوکہ صرف افغانستان سے بہتر ہے۔
پہلے بیٹنگ کی نسبت ہدف کے تعاقب میں پاکستانی بلے بازوں کی اپروچ پھر بھی کافی بہتر رہی ہے۔ 2022ء ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے بعد سے پاکستانی ٹیم دوسری بیٹنگ کرتے ہوئے 9.28 اور پہلے کھیلتے ہوئے 8.08 کے رن ریٹ سے کھیل رہی ہے۔ 1.20 رنز پر اوور کا یہ فرق، بیس اوورز میں 24 رنز تک جا پہنچتا ہے اور یہ وہی 24 رنز ہوتے ہیں جن کے بارے میں پاکستانی کپتان میچ کے بعد پریس کانفرنس میں کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ’ہم 15، 20 رنز شارٹ تھے‘۔
پاکستانی ٹیم کی ناقص کارکردگی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ پاکستانی بلے باز ابھی تک جدید طرز کی ٹی ٹوئنٹی اپروچ اپنانے میں ناکام ہیں۔ بابر اعظم اور محمد رضوان تسلسل سے رنز تو بنا رہے ہیں لیکن ان کا اسٹرائیک ریٹ 130 کے آس پاس ہی رہتا ہے جن سے آج کے دور میں ایک بڑا ہدف کھڑا کرنا ممکن نہیں۔ وہیں پاکستانی ہارڈ ہٹرز اکثر و بیشتر ناکامی کا سامنا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان سپر لیگ اور دوسری لیگز کی کارکردگی کو بین الاقوامی سطح پر بہت کم ہی دہرا پاتے ہیں اور یوں پاکستانی ٹیم اکثر 15، 20 رنز شارٹ ہی رہ جاتی ہے۔
پاکستانی باؤلرز کی اگر بات کی جائے تو فٹ ہوکر ٹیم میں واپس آنے والے نسیم شاہ ابھی تک اپنی سوئنگ حاصل کر پائے ہیں اور نہ ہی اپنی اس لینتھ کو پکڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ جو بلے بازوں کا کریز پر کھڑے ہونا دشوار بنائے رکھتی تھی۔ نسیم شاہ جو ان فٹ ہونے سے قبل نئی گیند کو ایسے گھماتے تھے کہ گیند کبھی بلے کے باہری اور کبھی اندرونی کنارے کے پاس سے ہوتی وکٹ کیپر کے پاس جاتی تھی، اب اکثر نسیم شاہ کی گیند بلے کے درمیانی حصے سے ٹکرا کر باؤنڈری کے پار جاتی دکھائی دیتی ہے۔
محمد عامر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے میچ کے کھلاڑی ہیں لیکن بڑے میچ میں پرفارم کرنے کے لیے پہلے اس بڑے میچ کے لیے کوالیفائی کرنا بھی ضروری ہے اور ابھی تک عامر کی باؤلنگ میں وہ دم خم نظر نہیں آیا جو پاکستان کو بڑے میچز تک لے جا سکے۔ حارث رؤف ابھی تک مکمل فٹ نہیں ہوپائے اور اس بارے میں کنفرم نہیں کہ وہ کب مکمل طور پر فٹ ہوں گے۔ لیکن اگر وہ مکمل فٹ ہو بھی جاتے ہیں تو کیا وہ بہتر کارکردگی دکھا پائیں گے؟ پچھلے کچھ عرصے میں تو حارث رؤف صرف تیز سے تیز تر گیندیں پھینکنے کی کوشش میں رنز کھاتے ہی نظر آئے ہیں۔
شاہین آفریدی دیگر فاسٹ باؤلرز کی نسبت بہتر فارم میں نظر آ رہے ہیں۔ نئی گیند کے ساتھ ساتھ پرانی گیند سے بھی وکٹیں حاصل کر رہے ہیں لیکن جب کوئی بلے باز شاہین کو ہدف بنا لے تو ایسا لگتا ہے کہ شاہین کے پاس بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں۔ ساتھ ہی کبھی کبھی شاہین کی ہر گیند پر وکٹ کی تلاش بھی ان کے لیے مسائل کھڑے کر دیتی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا وہ صرف ایک سیریز کے بعد کپتانی سے ہٹائے جانے کا دکھ بھول کر اپنی مکمل توجہ باؤلنگ پر رکھ پائیں گے؟
اگرچہ پاکستانی فاسٹ باؤلرز کی کارکردگی تو خراب ہی ہے لیکن پاکستانی اسپنرز کی تو کوئی کارکردگی نظر ہی نہیں آرہی۔ پاکستان کے مین اسپنر شاداب خان کا تو اب نام ہی ’رائٹ آرم فل ٹاس باؤلر‘ پڑتا جارہا ہے۔ یہ درست ہے کہ شاداب خان پاکستانی اسکواڈ کے بہترین فیلڈر ہیں، کبھی کبھی بیٹنگ میں بھی اپنی کارکردگی سے میچز جتوا دیتے ہیں لیکن اگر وہ اسپن باؤلنگ میں ہی ناکامی کا سامنا کریں گے تو پھر ٹیم میں ان کی جگہ پر بھی سوالیہ نشان لگ جائیں گے۔
عماد وسیم اپنی واپسی کے بعد عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن کپتان بابر اعظم کی جانب سے عماد وسیم کو پاور پلے میں استعمال نہ کرنا عماد وسیم کے لیے ہی نہیں پاکستانی ٹیم کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ عماد وسیم پاور پلے اوورز میں رنز کی رفتار روکنے میں ماہر ہیں اور ان کی اسی مہارت کی وجہ سے عماد وسیم خود یا ان کے ساتھی باؤلرز وکٹیں بھی حاصل کرسکتے ہیں پر اس وقت ٹیم انتظامیہ اور کپتان کسی اور سوچ کو لے کر چل رہے ہیں۔
پاکستانی اسکواڈ میں حسن علی کی شمولیت پر کافی بات ہوئی تو کہا گیا کہ انہیں ریزرو میں رکھا گیا ہے لیکن پھر انہیں آئرلینڈ کے خلاف ایک میچ بھی موقع دے دیا گیا۔ حسن علی کی اس دورے پر ٹیم میں شمولیت اور زمان خان کا اسکور میں موجود نہ ہونا ہی کم نہ تھا کہ اس پر کپتان بابر اعظم کی پریس کانفرنس میں اس سب کی وجوہات نے لوگوں کو شش و پنج میں مبتلا کردیا۔ اس پریس کانفرنس میں بابر اعظم نے زمان خان کو نئی گیند کا باؤلر قرار دیا جبکہ زمان خان ابھی تک زیادہ تر دسویں اوور کے بعد ہی زیادہ کامیاب رہے ہیں۔
پاکستانی ٹیم کی نامناسب کارکردگی، ٹیم کی سلیکشن میں کچھ مسائل کے باوجود ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ پاکستانی کھلاڑیوں کی قابلیت پر کوئی شک نہیں لیکن اس وقت قومی ٹیم اپنی قابلیت کے مطابق کھیل پیش نہیں کر پا رہی۔ وائٹ بال کرکٹ کے نئے ہیڈ کوچ گیری کرسٹن انگلینڈ میں ٹیم کے ساتھ مل جائیں گے اور اس کے بعد امید ہے کہ پاکستانی ٹیم کی کھیل کے حوالے سے حکمتِ عملی بہتر ہوتی جائے گی۔
گزشتہ ہفتے گیری کرسٹن کی بات چیت میں سب سے اہم بات کپتان بابر اعظم کے متعلق تھی۔ گیری کرسٹن کے مطابق وہ کوشش کریں گے کہ بابر اعظم کے کاندھے سے پوری ٹیم کی بیٹنگ کا بوجھ ہٹایا جائے۔ بابر اعظم سے کہا جائے گا کہ وہ کھل کر کھیلیں اور یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ پوری ٹیم کا دار و مدار ان پر ہی ہے۔
اگر گیری کرسٹن یہ اور اس طرح کی ایک دو اور چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں پاکستانی ٹیم کے طریقہِ کھیل میں لانے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستانی ٹیم کی کارکردگی میں واضح طور پر فرق نظر آسکتا ہے۔
ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔