دنیا

افغانستان میں فائرنگ سے 3 ہسپانوی سیاحوں سمیت 4 افراد قتل

طالبان حکومت اس جرم کی شدید مذمت کرتی ہے، یقین دلاتے ہیں کہ تمام مجرموں کو تلاش کرکے سزا دی جائے گی، ترجمان طالبان

افغانستان کے مقبول سیاحتی مقام بامیان میں فائرنگ کے نتیجے میں تین ہسپانوی سیاح اور ایک افغان شہری ہلاک ہوگیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق افغان وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے 4 افراد کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمعہ کی شام میں بامیان شہر میں فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 4 غیرملکی اور 3 افغان شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔

ہسپانوی وزارت خزانہ نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں تین ہسپانوی سیاح شامل تھے، مزید کہا کہ کم ازکم ایک ہسپانوی شہری زخمی بھی ہوا ہے۔

یورپی یونین نے سخت الفاظ میں حملے کی مذمت کی ہے۔

یورپی یونین نے بیان میں کہا کہ اس حملے میں جن کی جانیں گنوائیں اور جو زخمی ہوئے، ہمارے ان متاثرین کے خاندانوں اور پیاروں کے ساتھ اظہار افسوس کرتے ہیں۔

ہسپتال ذرائع کی جانب سے دی گئی ابتدائی معلومات کے مطابق زخمیوں میں ناروے، آسٹریلیا، لتھوانیا اور اسپین کے باشندے شامل ہیں۔

عبدالمتین قانی نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے 4 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے، تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیا فائرنگ کرنے والے ایک سے زائد افراد تھے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان حکومت اس جرم کی شدید مذمت کرتی ہے، متاثرین کے خاندانوں سے اپنے افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ تمام مجرموں کو تلاش کرکے سزا دی جائے گی۔

مقامی رہائشی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس نے یکے بعد دیگرے گولیوں کی آوازیں سنیں، اور جائے وقوعہ پر جانے والی سڑک کو فوری طور پر سیکیورٹی فورسز نے بلاک کر دیا تھا۔

بامیان افغانستان کا سب سے بڑا سیاحتی مقام اور دیو بدھا کا گھر ہے، جسے 2001 میں طالبان نے تباہ کر دیا تھا۔

2021 میں مغربی حمایت یافتہ حکومت کو ہٹانے کے بعد طالبان نے اقتدار سنبھالا، جس کے بعد سیکیورٹی میں بہتری آنے کے بعد زائرین کی بڑھتی ہوئی تعداد نے افغانستان کا رخ کیا۔

طالبان حکام کے قبضے کے بعد زیادہ تر سفارتخانے خالی ہونے کے بعد وہ قونصلر سپورٹ کے بغیر چھٹیاں مناتے ہیں، جبکہ مغربی ممالک نے دورہ کرنے کے خلاف انتباہ بھی دیا ہے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں غیر ملکیوں پر حملے شاذ و نادر ہی ہوئے ہیں۔

مغربی صوبے ہرات میں آمد کے بعد ایک غیرملکی سیاح نے افغانستان میں سفر کرنے والے مسافروں کے واٹس ایپ گروپ پر پوسٹ کیا کہ طالبان حکام نے مجھے اور دیگر افراد کو روک لیا تھا اور کہا تھا کہ ’بامیان کی وجہ سے ہم محفوظ نہیں ہیں‘۔

سیاح نے مزید بتایا کہ کچھ دیر اور گوگل ٹرانسلیٹ کے بعد ہم نے انہیں راضی کر لیا کہ ہمیں جانے دیں، انہوں نے کہا کہ جاؤ، جلدی سے کھانا کھاؤ اور واپس چلے جاؤ۔

بامیان کے علاقے میں ہزارہ شیعہ برادری کے افراد کی اکثریت ہے۔

تاریخی طور پر ظلم و ستم کا شکار مذہبی اقلیت کو اسلامک اسٹیٹ گروپ نے بارہا نشانہ بنایا ہے۔

طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر کمی ہوئی ہے۔

تاہم داعش سمیت متعدد مسلح گروہ اب بھی خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے قائم مقام صدر، رانا ثنااللہ چیف الیکشن کمشنر مقرر

مغربی افغانستان میں سیلاب سے 50 افراد ہلاک

خوشاب: بریک فیل ہونے کے باعث ٹرک حادثے کا شکار، بچوں سمیت 14 افراد جاں بحق، 12 زخمی