پاکستان

دبئی لیکس کی تحقیقات ایف آئی اے، نیب سے کرانے کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر

تحقیقات ہونی چاہئیں کہ دبئی میں خریدی گئی پراپرٹیز منی لانڈرنگ سے تو نہیں بنائی گئیں، درخواست
|

دبئی لیکس کی تحقیقات وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور قومی احتساب بیورو (نیب) سے کرانے کے لیے درخواست دائر لاہور ہائی کورٹ میں دائر کر دی گئی۔

درخواست شہری مشکور حسین نے ندیم سرور ایڈووکیٹ کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی، جس میں وفاقی حکومت، نیب ، ایف آئی اے سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ دبئی لیکس میں کئی پاکستانی سیاستدانوں اور کاروباری شخصیات کے نام آئے، ہر سیاستدان پر اپنی تمام ملکی و غیر ملکی پراپرٹی ظاہر کرنا لازم ہے۔

استدعا کی گئی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ ایف آئی اے، نیب اور دیگر متعلقہ اداروں کو دبئی لیکس کی تحقیقات کا حکم دے، تحقیقات ہونی چاہئیں کہ دبئی میں خریدی گئی پراپرٹیز منی لانڈرنگ سے تو نہیں بنائی گئیں۔

درخواست میں مزید استدعا کی گئی ہے کہ دبئی میں غیر قانونی پراپرٹی ثابت ہونے پر مالکان کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دیا جائے۔

واضح رہے کہ 14 مئی کو پاناما لیکس کے کئی سال بعد عالمی رہنماؤں، سیاستدانوں اور دیگر طاقتور افراد کی خفیہ دولت کی تفصیلات کے حوالے سے ’دبئی اَن لاکڈ‘ کے نام سے ایک اور لیک سامنے آئی تھیں۔

تفصیلات تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم (آئی سی آئی جے) طرز کے ایک اور تحقیقاتی کنسورشیم آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) نے ڈیٹا لیک کی شکل میں جاری کی تھیں۔

دبئی ان لاکڈ کی تفصیلات کے مطابق دنیا بھر کے چوٹی کے امیر افراد کی دبئی میں اربوں ڈالرز کی جائیدادیں موجود ہیں۔

دبئی ڈیٹا لیکس میں 17 ہزار پاکستانی شہری دبئی میں رہائشی املاک کے مالکان کے طور پر ظاہر کیے گئے ہیں۔

ڈیٹا میں پاکستانیوں کی جانب سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں کُل سرمایہ کاری کی مالیت ساڑھے 12 ارب ڈالر بتائی گئی ہے۔

پاکستان کو نیا قرض جاری کرنے سے متعلق بات کرنا قبل از وقت ہے، آئی ایم ایف

ملک کیلئے آرمی چیف کو خط لکھوں گا، فوج اور عوام کو سامنے نہیں آنا چاہیے، بانی پی ٹی آئی

کرغزستان میں مقامی افراد کے غیر ملکی طلبہ پر حملے، متعدد پاکستانی طلبہ بھی زخمی