دنیا

روس اور چین کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کی مضبوطی پر اتفاق

ولادیمیر پیوٹن اور شی جنگ پنگ نے سفارتی تعلقات کے 75 سال مکمل ہونے کی تقریب میں بھی شرکت کی

چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے روسی ہم منصب کو یقین دلایا ہے کہ دنیا میں انصاف کے حصول کے لیے چین ہر صورت روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 17 مارچ کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں پانچویں بار روس کے صدر منتخب ہونے والے ولادیمیر پیوٹن اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر چین میں موجود ہیں جہاں انہوں نے گزشتہ روز چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی۔

خیال رہے کہ روسی صدر شی جنگ پنگ کا گزشتہ 6 ماہ کے دوران یہ چین کا دوسرا دورہ ہے، جہاں وہ یوکرین جنگ میں اپنے دوست ملک چین کی بھرپور حمایت حاصل کرنے کے لیے پرامید ہیں، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب یوکرین پر حملہ کرنے کے نتیجے میں مغربی ممالک کی جانب سے پابندیوں کی وجہ سے روس کو اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔

چین کے سرکاری نشریاتی ادارے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ روسی صدر کے لیے بیجنگ کے ’گریٹ ہال آف دی پیپل‘ کے باہر ایک شاندار تقریب رکھی گئی جہاں چینی صدر نے اپنے روسی ہم منصب کا استقبال کیا۔

دونوں سربراہان مملکت کے درمیان ملاقات کے دوران شی جن پنگ نے اپنے دیرینہ دوست ولادیمیرپیوٹن کو بتایا کہ چین اور روس کے تعلقات امن کے لیے سازگار ہیں جب کہ دنیا میں انصاف کے حصول کے لیے چین ہر صورت میں روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

اس موقع پر روسی صدر نے اپنے چینی ہم منصب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات عالمی میدان میں استحکام کے عوامل ہیں اور یہ تعلقات موقع پرست نہیں اور نہ ہی کسی کے خلاف ہیں بلکہ ہم مل کر انصاف کے اصولوں اور ایک جمہوری عالمی نظام کو برقرار رکھتے ہیں۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا کے مطابق دونوں صدور کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد جامع اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ایک مشترکہ اعلامیہ پر بھی دستخط کیے گئے۔

مشترکہ اعلامیہ میں امریکا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ امریکا اب بھی سرد جنگ کے خیالات رکھتا ہے اور چھوٹے گروپوں کی سلامتی کو علاقائی سلامتی سے بالاتر رکھتا ہے جس سے خطے کے دیگر ممالک کی سلامتی کو خطرات پیدا ہورہے ہیں، امریکا کو یہ رویہ ترک کرنا ہوگا۔

اعلامیہ میں عالمی ریاستوں کے اثاثوں اور املاک کو ضبط کرنے کے اقدامات کی بھی مذمت کی گئی، روس کے منجمد اثاثوں سے حاصل ہونے والے منافع سے یوکرین کی مدد کے لیے اقدامات کرنا، اس کی واضح مثال ہیں۔

کریملن نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ ملاقات کے دوران روس اور چین نے یوکرین تنازعہ کو ’مزید بڑھانے‘ کی مخالفت کرنے پر اتفاق کیا، فریقین نے کسی بھی ایسے اقدام کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا جو دشمنی کو طول دینے میں معاون ہوں۔

بعد ازاں، روسی صدر نے چینی وزیراعظم لی کیانگ سے بھی ملاقات کی جس میں چینی وزیراعظم نے کہا کہ بیجنگ مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید گہرا کرنے کے لیے تیار ہے، پیوٹن اور شی جن پنگ نے سفارتی تعلقات کے 75 سال مکمل ہونے کی تقریب میں بھی شرکت کی۔

خیال رہے کہ دورہ چین سے قبل چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’شنہوا‘ کو ماسکو میں دیے گئے انٹرویو کے دوران روسی صدر کا کہنا تھا کہ ’ہم یوکرین کے بحران کو حل کرنے کے لیے چین کے نقطہ نظر کی تعریف کرتے ہیں‘۔

آئی ایم ایف کے مطالبے پر پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن ٹیکس عائد کرنے کی تجویز

ملک بھر میں 21 مئی سے ہیٹ ویو کا امکان

غزہ میں نسل کشی ’نئے اور خوفناک‘ مرحلے تک پہنچ گئی، جنوبی افریقہ