’آج اگر ہیرامنڈی موجود ہے تو وہ لاہور نہیں بلکہ بھنسالی کے تخیل میں ہے‘
نریندر مودی اور سنجے لیلا بھنسالی میں ایک بات مشترک ہے، دونوں ہی پاکستان کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں جس سے دیکھنا چاہتے ہیں۔
نریندر مودی کا پاکستان کے حوالے سے تاثر ایک ایسے ملک کا ہے جسے دہشتگرد چلاتے ہیں اور وہ بھارت کے آسان اہداف کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ بھنسالی نے جھوٹی من گھڑت باتیں بنانے کے لیے اپنے کیمرے کی آنکھ کا استعمال کیا ہے۔ ان کی حالیہ تخلیق لاہور کے ریڈ لائٹ ایریا ہیرا منڈی پر مبنی 8 اقساط پر مشتمل نیٹ فلیکس سیریز ہے۔ (ہیرا منڈی کا نام مہاراجا رنجیت سنگھ کے قریبی راجا ہیرا سنگھ سے منسوب ہے۔)
سنجے لیلا بھنسالی جو ایک باصلاحیت فلم ساز، پروڈیوسر، لکھاری اور موسیقار ہیں، اپنے ناقدین کو ہمیشہ مایوس کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ناقدین کو شیکسپیئر کے شہرہ آفاق رومانوی ناول رومیو اینڈ جولیٹ سے موافق رام لیلا بنا کر چیلنج دیا۔ اس نام نے رام بھگوان کے ماننے والوں کو مشتعل کیا جس کی بنا پر انہوں نے مجبوراً فلم کا نام بدل کر گولیوں کی راس لیلا رام لیلا رکھ دیا۔
مخالفین نے انہیں دہلی ہائیکورٹ اور پھر الہٰ آباد ہائی کورٹ کے لکھنو بینچ کے چکر لگانے پر مجبور کیا، جس نے فلم کی ریلیز کے ایک سال بعد اتر پردیش میں اس کی نمائش پر پابندی عائد کردی۔ ان رکاوٹوں کے باوجود یہ فلم 2013ء میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی 5ویں فلم تھی۔
سنجے لیلا بھنسالی کا اگلا پروجیکٹ باجی راؤ مستانی (2015ء) میں مراٹھی ہیرو پیشوا باجی راؤ اول اور اس کی دوسری بیوی مستانی کی محبت کی داستان ہے۔ حقیقی باجی راؤ اور مستانی کی موجودہ نسل نے اس فلم سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور دعویٰ کیا کہ ’بھنسالی کی ضرورت سے زیادہ تخلیقی آزادی نے ہمارے آباؤاجداد کی غلط تصویر کشی کی‘۔ انہوں نے اسٹر آرڈر کے لیے بمبئی ہائی کورٹ سے رجوع کیا لیکن انکار کردیا گیا۔ بھنسالی نے ایک بار پھر اپنے ناقدین کو جواب دیا اور یہ فلم بھارت کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔
بھنسالی کی فلم پدماوت (2018ء) نے 13ویں صدی کے میواڑ کے راجپوت حکمران راول رتن سنگھ اور دہلی سلطنت کے حکمران علاالدین خلجی کو یاد کیا۔ دونوں رانی پدمنی (عرف پدماوت) کے لیے ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں۔ فلم کا اختتام ڈرامائی ہے جس میں خواتین کے ایک گروپ کی پدمنی راجپوت قیادت کرتی ہے جو جوہر ادا کرنے کے لیے چٹور گڑھ قلعے کے اندر پھنس گئی تھیں جس کا مطلب تھا کہ انہوں نے پکڑے جانے کے بجائے خودسوزی کا انتخاب کیا۔
انتہاپسندوں نے بھنسالی کو اس فلم کی عکس بندی تک مکمل کرنے نہ دی۔ 2017ء میں جے پور میں اس فلم کی شوٹنگ کے دوران شری راجپوت کرنی سینا کے مشتعل کارکنان نے سنجے لیلا بھنسالی اور ان کی ٹیم پر حملہ کیا اور فلم کے سیٹ کو نقصان پہنچایا۔ بعدازاں ایک اور گروہ نے اسٹوڈیو اور فلم میں پہنے جانے والے قدیم لباسوں کو نذرِآتش کردیا۔ بھنسالی نے اس کا بدلا یوں لیا کہ پدماوت اس سال سب سے زیادہ کمائی کرنے والی بھارتی فلم بنی۔
سنجے لیلا بھنسالی کی تازہ ترین پیش کش ’ہیرا منڈی: دی ڈائمنڈ بازار‘ خالصتاً ان کے ذہن کی پیداوار ہے۔ انہوں نے اس خیال کو 14 سالوں تک اپنے تصورات میں پروان چڑھایا اور پھر اس کی ہدایتکاری، اس کی اسکرپٹ کی تیاری میں شرکت، گانوں کی موسیقی اور اس مختصر سیریز کو پروڈیوس کیا۔ یہ 1940ء کے اواخر میں لاہور کی ہیرا منڈی کی کہانی پیش کرتی ہے۔ یہ طوائفوں کی مشکلات کے حوالے سے ہے جو پہلے سماجی اور پھر سیاسی قبولیت کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار خواتین سڑکوں پر مارچ کرتی ہیں جہاں کی پیروں کے گھنگرو شور مچاتے ہیں۔ وہ آزادی اور اپنے برطانوی گاہکوں سے آزادی کا مطالبہ کرتی ہیں۔
بہ ظاہر بھنسالی چاہتے تھے کہ پاکستانی اداکار ان کی اس سیریز میں کام کریں۔ لیکن سیاست آڑے آگئی۔ ایسا نہیں تھا کہ پاکستانی اداکار بھنسالی کے ناقدین کے سامنے ڈھال بن سکتے تھے، کیونکہ ان سیریز میں تاریخ کے حوالے سے کم علمی نے ناقدین کو تنقید کا موقع دیا۔ بہت سے لاہوری اور باہر کے لوگ جو لاہور کو پسند کرتے ہیں وہ ہیرامنڈی سیریز میں لاہور کی سماجی منظر کشی کو پسند نہیں کریں گے۔ حتیٰ کہ 1947ء سے پہلے کے عرصے میں لاہور لکھنو کی نفاست پسندی اور وہاں کے کلچر سے مماثلت نہیں رکھتا تھا (جیسا کہ بھنسالی کے ناظرین کو لگے گا)۔
ان کی کاسٹ نے طوطے کی طرح اردو کے ڈائیلاگز بولے لیکن ان کا تلفظ انتہائی خراب تھا۔ ان کی سیریز میں اداکارائیں حسین انداز میں ملبوس ہیں جبکہ مرد کردار زیادہ تر آدھے لباس میں نظر آئے جبکہ نچلے طبقے کی نوکرانیاں اور خدمت گزار مرد پنجابی بولتے نظر آئے۔
ان کی سیریز میں رقاصہ درویشوں کی طرح گھومتی نظر آئیں جوکہ پرانی مسلم سماجی فلمیں جیسے پاکیزہ اور مغل اعظم کی طرح لگیں۔ بھنسالی کی سیریز میں مرد اداکار مخمل کی ٹوپیاں پہنے نظر آئے جوکہ ایک وقت میں تامل ناڈو کے مرحوم اداکار/وزیراعلیٰ ایم جی راماچندرن کی وجہ شہرت تھیں۔
گزرتے سالوں میں لاہور کی ہیرامنڈی اپنی باسیوں کی طرح اپنی رغبت کھونے لگی۔ پرانے علاقے سے کاروبار نئے علاقوں میں منتقل ہوگئے جس کے بعد یہاں اسٹریٹ فوڈز کاروباروں نے قدم جمائے۔ وہ کوٹھے جو کبھی گھنگروؤں کی آوازوں سے گونجتے تھے اب وہاں مہنگے ریسٹورنٹس ہیں۔ 1970ء کی دہائی کے بعد لندن سوہو میں نمایاں تبدیلی آئی اور یہاں کھانوں کی مہک اٹھنے لگی۔
1959ء میں برطانیہ نے اسٹریٹ اوفینس ایکٹ نافذ کیا تھا۔ اس کے بعد سڑک پر غیراخلاقی مقاصد کے لیے کھڑے ہونا جرم قرار دیا گیا، اس کا مقصد لندن کی سڑکوں کو پاک کرنا تھا۔ کامیڈین پیٹر اوسٹینوف نے اس ایکٹ کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ گلیوں کی صفائی کرنا کھانے کے بعد میز صاف کرنے کے مترادف ہے، یعنی برتن کو ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھنا ہوتا ہے’۔
اسی طرح گزرتے سالوں میں ہیرامنڈی کے برتن اب پوش علاقوں میں منتقل ہوچکے ہیں۔ اگر ہیرامنڈی موجود ہے تو بھنسالی کے رنگین ذہن میں ریڈ لائٹ کا تخیل موجود ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
ایف ایس اعجاز الدین ملکی و بین الاقوامی سیاست پر بہت عمدہ لکھتے ہیں،آپ عرصہ دراز سے ڈان سے وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔