دبئی پراپرٹی لیکس میں سابق فوجی افسران کی جائیدادیں بھی شامل
نوٹ: بیرون ملک جائیداد کا مالک ہونا بذات خود کوئی جرم نہیں، اور نہ ہی پاکستان سے باہر جائیداد کا مالک ہونا غیر قانونی سرگرمی ہے۔ بیرون ملک کام کرنے والے بہت سے افراد کے پاس جائیدادیں ہیں، ان لوگوں نے جائیدادیں آمدن پر ٹیکس ادا کر کے خریدی ہیں۔ بیرون ملک جائیدادوں کی قانونی حیثیت کا تعین کرنا متعلقہ ملک کے ٹیکس حکام کا معاملہ ہے جبکہ عوامی مفاد کے پیش نظر اعلیٰ سیاسی یا فوجی حکام سے منسوب جائیدادوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
دبئی پراپرٹی لیکس میں ریٹائرڈ فوجی افسران کے نام بھی شامل ہیں جن میں سے کچھ دنیا فانی سے کوچ کرچکے ہیں تاہم کچھ سابق افسران اور ان کے خاندان کے دیگر افراد آج بھی ان جائیدادوں کے مالک ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دبئی پراپرٹی لیکس میں ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کے نام بھی شامل ہیں جو اس فہرست میں 2022 کے موسم بہار تک لسٹڈ مالکان کے طور پر ظاہر ہیں جب کہ اس اعدادوشمار میں بہت سے اہلکاروں کی ملکیت کی دستاویزات اور ان کا رینک بھی شامل تھا۔
دبئی پراپرٹی لیکس میں لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عالم جان محسود (مرحوم) اور ان کی اہلیہ کے نام تین جائیدادیں ہیں لیکن آج کی تاریخ میں یہ جائیدادیں ان کے نام پر نہیں ہیں۔
ناروے کے مالیاتی آؤٹ لیٹ ای 24 اور آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) کے ڈیٹا کے مطابق الحمری میں تین بیڈ روم والے اپارٹمنٹ کی قیمت 2009 میں 11 لاکھ 50 ہزار درہم یا 3 لاکھ 3ہزار ڈالر تھی جو 2021 میں 5 لاکھ ڈالر سے زیادہ قیمت پر فروخت ہوا۔
خیال رہے کہ تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم (آئی سی آئی جے) طرز کے ایک اور تحقیقاتی کنسورشیم آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) نے ’دبئی اَن لاکڈ‘ لیک کا ڈیٹا جاری کیا ہے۔
پراپرٹی لیکس میں مبینہ طور پر جائیدادیں چھپانے والوں میں روسی شخصیات سرفہرست ہیں تاہم اس ڈیٹا میں پاکستان کے نامور سیاست دان، بیوروکریٹس، کاروباری شخصیات سمیت فوجی افسران کے نام بھی شامل ہیں۔
سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے متعدد ارکان دبئی ڈیٹا لیکس میں شامل
سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے ملٹری سیکریٹری کے فرائض انجام دینے والے لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شفاعت اللہ شاہ کا نام بھی دبئی ڈیٹا لیکس میں شامل ہے اور انہوں نے 2005 میں جائیداد خریدی تھی۔ وہ کور کمانڈر لاہور کے علاوہ جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں چیف آف لاجسٹکس اسٹاف کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔او سی سی آر پی کے ذریعے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق بارشا ہائٹس میں دو بیڈ روم کا اپارٹمنٹ میں 2015 میں ایک لاکھ 39 ہزار 398 ڈالر میں خریدا گیا تھا۔
دبئی لینڈ ڈپارٹمنٹ (ڈی ایل ڈی) کے فروری 2024 کے ریکارڈز کے مطابق لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شفاعت اللہ اب بھی اپنے بیٹے کے ہمراہ اس جائیداد کے مالک ہیں۔
ڈان کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شفاعت اللہ نے بتایا کہ وہ اور ان کی فیملی اس جائیداد کے مالک ہیں جب کہ یہ تمام اثاثے اور ان سے ہونے والی آمدن ایف بی آر میں ظاہر کیے گئے ہیں۔
آئی ایس آئی پولیٹیکل ونگ کے سربراہ میجر جنرل ریٹائرڈ (مرحوم) سید احتشام ضمیر کا نام بھی دبئی پراپرٹی لیکس2020 سے 2022 تک شامل ہے تاہم وہ اب اس جائیداد کے مالک نہیں ہے جب کہ ان کا نام ایک اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کے ساتھ جڑا ہوا ہے جس کی قیمت 2008 میں 54 ہزار 181 ڈالر تھی اور یہ اگست 2019 میں 63 ہزار 438 ڈالر میں فروخت ہوا۔
سید احتشام ضمیر کی اہلیہ نے ہاربر پوائنٹ ٹاؤر میں تین بیڈروم کے اپارٹمنٹ کی ادائیگی کی جس کی مارکیٹ ویلیو جنوری 2018 میں 8 لاکھ 77 ہزار 761 ڈالر تھی۔ ڈان کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کے بیٹے نے بتایا کہ یہ جائیداد ستمبر 2021 میں ایک لاکھ 60 ہزار ڈالر میں فروخت ہوئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے والدین نے پاکستان میں اپنی جائیدادیں بیچنے کے بعد یہ جائیداد خریدی تھی اور یہ تمام اثاثے ایف بی آر اور پاک فوج کے ریکارڈ میں شامل ہیں۔
ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا، مرینا آرکیڈ میں 2 بیڈ روم والے اپارٹمنٹ کے مالکان ہیں جو جولائی 2017 میں 4 لاکھ 40 ہزار 382 ڈالر میں خریدی گئی تھی۔ اس کے علاوہ جولائی 2019 سے جولائی 2024 تک اس پراپرٹی سے کرائے کی مد میں حاصل ہونے والی کل آمدنی 1 لاکھ 30 ہزار 141 ڈالر بنتی ہے اور وہ آج بھی اس جائیداد کے مالکان ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) محمد اکرم، ایلیٹ ریزیڈنس 4 کی عمارت میں 2 اسٹوڈیو اپارٹمنٹس کے مالک ہیں تاہم اب یہ جائیدایں ان کی ملکیت میں نہیں ہیں اور یہ اسی دوران ایک شخص کو فروخت کردی گئی تھیں۔ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ یہ دونوں اسٹوڈیوز ستمبر 2013 میں تقریباً ایک لاکھ 50 ہزارڈالر میں خریدے گئے تھے اور پھر 2022 میں فروخت ہوئے لیکن اس رقم کا ڈیٹا موجود نہیں ہے۔
دبئی پراپرٹی لیکس میں میجر جنرل غضنفر علی خان (ریٹائرڈ)، الوارسان فرسٹ میں ایک رہائشی یونٹ کے مالک ہیں۔ ڈی ایل ڈی سسٹم کے مطابق وہ مارچ 2024 تک اس پراپرٹی کے مالک ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جائیداد اکتوبر 2010 میں 81 ہزار 406 ڈالر میں خریدی گئی اور دسمبر 2013 سے فروری 2024 تک کرایہ کی مد میں یہاں سے 64 ہزار 117 ڈالر کی رقم حاصل کی گئی۔
سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا نام بھی شامل
سابق صدر اور آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف (مرحوم) اور ان کی اہلیہ کا نام بھی دبئی پراپرٹی لیکس میں شامل ہے اور وہ اس فہرست میں ایک جائیداد کے مالک کے طور پر موجود ہیں جب کہ ان کی اہلیہ اس کی موجودہ مالک ہیں۔ صدف ٹو میں 3 بیڈ روم والے اپارٹمنٹ کو اپریل 2012 میں 4 لاکھ 49 ہزار 233 ڈالر میں خریدا گیا تھا۔
فہرست میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ نادر میر کو الوارسان فرسٹ میں ایک اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کے مالک کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ڈی ایل ڈی کے مارچ 2024 کے ڈیتا کے مطابق وہ اب بھی اس جائیداد کے مالک ہیں۔ یہ جائیداد مارچ 2010 میں 5 ہزار 110 ڈالر میں خریدی گئی تھی اور 2014 سے 2023 تک کرائے کی آمد میں اس پراپرٹی سے 33 ہزار 52 ڈالر کی آمدن ہوئی۔
دبئی پراپرٹی لیکس میں سابق ڈی جی ملٹری لینڈ میجر جنرل سید نجم الحسن شاہ ریٹائرڈ بھی ال سقران ٹاور میں ایک آف پلان پراپرٹی کے مالک ہیں۔ جون 2012 میں اس پراپرٹی کی مارکیٹ ویلیو 3 لاکھ 61 ہزار 942 ڈالر تھی۔ ڈی ایل ڈی سسٹم میں آج بھی جائیداد ان کی ملکیت میں ہیں۔ اس کے علاوہ فہرست میں ان کا نام الثانیہ ففتھ الشیرا اور الہیبیہ تھرڈ میں 2 دیگر جائیدادوں کے ساتھ بھی جوڑا گیا ہے لیکن آج کی تاریخ میں ان میں سے کوئی بھی جائیداد ان کی ملکیت میں ظاہر نہیں کی گئی ہے۔
میجر عزیز الامان زبیری ریٹائرڈ اور ان کے خاندان کا ایک فرد شیکسپیئر سرکس 1 میں ایک پراپرٹی کے مالک ہیں، جس کی قیمت نومبر 2013 میں 1 لاکھ 47 ہزار 797 ڈالر تھی اور یہ اپریل 2022 میں فروخت ہوئی۔
پراپرٹی لیکس کی فہرست میں میجر جنرل اوصاف علی ریٹائرڈ، الیوفرا 2 میں ایک اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کے مالک ظاہر کیے گئے ہیں۔ ڈی ایل ڈی سسٹم میں یہ آج بھی اس جائیداد کے مالک ہیں جو 2016 میں ایک لاکھ 39 ہزار 298 ڈالر میں خریدا گیا تھا۔
دبئی پراپرٹی لیکس کے مطابق میجر جنرل ریٹائرڈ راجا عارف نذیر، 2 آف پلان پراپرٹیز کے مالک ہیں جن میں دمک ہلز آرٹیشیا ٹاور میں ایک بیڈروم کا رہائشی یونٹ شامل ہے جس کی قیمت فروری 2015 میں 3 لاکھ 11 ہزار 931 ڈالر تھی۔
اس کے علاوہ گولف پرومینیڈ میں ایک بیڈروم کا اپارٹمنٹ بھی ان کی ملکیت میں ہے جس کی قیمت جون 2014 میں 3 لاکھ 42 ہزار 791 ڈالر تھی۔ بعد ازاں، 2021 سے 2024 تک اس جائیداد سے کرایہ کی مد میں 3 لاکھ 6 ہزار 755 ڈالر کی آمدن حاصل ہوئی۔ ڈی ایل ڈی کے مطابق عارف نذیر مارچ 2024 تک ان جائیدادوں کے مالک تھے۔
علاوہ ازیں، ایئر وائس مارشل خالد مسعود راجپوت ریٹائرڈ کا نام بھی دبئی پراپرٹی لیکس میں سامنے آیا ہے۔