نقطہ نظر

گلگت بلتستان کے دلکش رنگ: ازوق کا ناشتہ اور کچورا جھیل کا سحر انگیز سفر

کچورا کی بالائی جھیل کا پانی بہت خاموش ہے اور کہا جاتا ہے کہ پانی جتنا خاموش ہو اتنا ہی خطرناک ہوتا ہے۔

دفتر سے فارغ ہوکر رات میں دوستوں کی بیٹھک لگی تو ایک دوست نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔

’دفتر کے کاموں نے تھکا دیا ہے، کیوں نہ پاکستان ٹور پر چلیں؟‘

ہم تینوں نے ایک دوسرے کے چہرے دیکھے اور فیصلہ کیا کہ کچھ وقت اپنے آپ کو دیتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا، پروگرام طے کیا اور کچھ دن بعد ہی بس اڈے پہنچے اور راولپنڈی جانے کے لیے اگلے روز کی ٹکٹس بُک کروا لیں۔ گھر آئے جلدی جلدی سامان باندھا اور یوں ہم تین دوست نکل پڑے پاکستان کے خوبصورت ترین مقام گلگت بلتستان کی سیر پر۔ اور وہ کہتے ہیں نا کہ اچانک بننے والے منصوبے ہمیشہ بہترین ثابت ہوتے ہیں، ہمارے ساتھ بھی کچھ یہی ہوا۔

ہم نے کراچی سے راولپنڈی بہ ذریعہ بس اپنے سفر کا آغاز کیا۔ 18 گھنٹے کے طویل سفر کے بعد ہم راولپنڈی کے سب سے بڑے بس اڈے پیرویدھائی پہنچے۔ یہ وہی اڈہ جہاں سے گلگت بلتستان سمیت ملک کے مختلف علاقوں کے لیے گاڑیاں روانہ ہوتی ہیں۔ ہم نے بھی یہاں سے گلگت بلتستان کے شہر اسکردو کے لیے اپنی گاڑی بُک کروائی۔ ہمیں بھوک کا احساس ہوا اور دیکھا کہ ابھی گاڑی کو روانہ ہونے میں کچھ وقت ہے تو ہم بس اسٹینڈ کے ساتھ موجود ہوٹل میں بیٹھ گئے۔

ہوٹل کی دیوار پر چسپاں مینیو پر نظر پڑی تو ہماری بھوک مزید چمک اٹھی۔ اسکردو پہنچنے سے پہلے ہی وہاں کی مقامی نمکین چائے جسے بلتی زبان میں ’پیوچا‘ کہتے ہیں اور بلتی پراٹھے ’ازوق‘، راولپنڈی کے اس ہوٹل میں دستیاب تھے۔ پیوچا کشمیری چائے کی طرح بنتی ہے لیکن اسے نمک اور دیسی گھی شامل کرکے بنایا جاتا ہے۔ اس چائے کو لوازمات کے بغیر بھی پیا جاسکتا ہے لیکن بلتستان کے زیادہ تر لوگ اس کے ساتھ کلچہ، روٹی یا پھر ازوق کھاتے ہیں۔ بلتستان کے مقامی لوگ اسے محاوراتاً ’بلتی شراب‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ اسے پینے کے بعد شاید یہ آپ کو اتنی پسند آجائے کہ گویا آپ کو اس کا نشہ ہوجائے۔

ازوق کا شمار بھی بلتی ثقافت سے وابستہ کھانوں میں ہوتا ہے۔ اس پراٹھے کو بھی دیسی انداز میں بنایا جاتا ہے۔ آٹا اور میدے میں دہی، دیسی گھی اور انڈے کو شامل کرکے گوندا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے مخصوص شکل دے کر اس وقت تک تیل میں تلا جاتا ہے جب تک وہ تھوڑا کرسپی نہ ہوجائے۔

چند منٹوں کے انتظار کے بعد ہمارا آرڈر آگیا۔ ہم نے بھی مقامی انداز میں ازوق کے ٹکڑے چائے میں ڈال کر کھائے۔ خوب سیر ہونے کے بعد اسکردو روانگی کے لیے گاڑی میں سوار ہوگئے۔

یہاں آپ کو ایک بات بتاتے چلیں کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اسکردو اور گلگت کی جانب جانے والی زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ راولپنڈی سے شام 4 بجے ایک ساتھ روانہ ہوتا ہے۔ یہ سب اقدام ماضی میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد کیے گئے۔ گو کہ اب یہ راستے خطرات سے خالی، پُرامن اور محفوظ ہیں لیکن پھر بھی حکومت احتیاط سے کام لیتی ہے۔ کچھ مخصوص مقامات پر مخصوص وقت پر ہی گاڑی گزرنے کی اجازت ہوتی ہے اور ان اوقات میں مختلف راستوں پر پولیس، فوج، ایف سی اور جی بی اسکاؤٹس کے جوان پیٹرولنگ کررہے ہوتے ہیں تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جاسکے۔

گاڑی جیسے ہی ہزارہ موٹر وے پہنچی تو ہمیں موسم میں یک دم تبدیلی محسوس ہوئی اور ٹھنڈی ہوائیں محسوس ہونے لگیں۔ اگرچہ راولپنڈی سے اسکردو کی مسافت 638 کلومیٹر ہے لیکن خراب راستوں کے باعث سفر میں کافی وقت لگتا ہے۔ سیاح زیادہ تر ناران کاغان جانے والا راستہ اختیار کرتے ہیں تاکہ وادی کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ وادی ناران کاغان سے اسکردو جانے کے لیے بابوسر ٹاپ والا راستہ اختیار کیا جاتا ہے اور بابو سر ٹاپ سردیوں میں کئی ماہ بند بھی رہتا ہے جس کی وجہ سے گاڑیاں دیامر بھاشا ڈیم والا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ ان دونوں راستوں میں سے بابوسر ٹاپ والا راستہ نسبتاً قریب ہے جس سے آپ کا سفر 4 سے 5 گھنٹے کم ہوجاتا ہے۔ ہماری بس نے بھی بابوسر ٹاپ والا راستہ اختیار کیا۔

لمبی مسافت کے بعد ہم جگلوٹ اسکردو روڈ پہنچے جہاں کچھ کچھ فاصلے پر آبشاروں کا نظارہ ہمیں ایک الگ لطف دے رہا تھا۔ تھوڑی دیر مزید سفر کے بعد ہم ستک نالہ پہنچ گئے جہاں سے اسکردو کی حدود کا آغاز ہوتا ہے۔ اس علاقے کو لوگ ’روندہ‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ ستک نالے کا پانی پہاڑوں سے بہت تیز بہاؤ کے ساتھ آتا ہے اور دریائے سندھ میں شامل ہوجاتا ہے۔ اسی ستک نالے کے دونوں اطرف ہوٹل قائم ہیں۔ ان میں ایک ہوٹل کی خاصیت یہ ہے یہاں پر ایک خاص قسم کا شوربہ اور روٹی ملتی ہے جسے کھانے کے لیے زیادہ تر لوگ یہاں پڑاؤ ڈالتے ہیں۔

ہم نے بھی اپنے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کو کہا اور شوربہ روٹی کھانے بیٹھ گئے۔ یہ شوربہ اسٹیل کے ایک بڑے کٹورے میں گرم گرم روٹی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ ہم نے جب اس شوربے میں پوری روٹی توڑ کر ڈالی اور پھر اسے کھایا تو مزہ آگیا۔

کھانے کے بعد ہم نے اپنا سفر جاری رکھا لیکن کچھ ہی دور پولیس چیک پوسٹ پر ہماری گاڑی کو روک دیا گیا۔ گاڑی کو روکنے کا مقصد اس کی مکمل چیکنگ اور گاڑی میں موجود افراد کی معلومات لینا ہوتا ہے تاکہ پہاڑی علاقوں میں سیر کے دوران بدقسمتی سے کوئی حادثہ ہوجائے تو پولیس کو یہ معلوم ہو کہ شہر میں کتنے سیاح داخل ہوئے ہیں۔

پولیس چیکنگ کے بعد کچھ منٹ کا سفر کرکے ہم اسکردو شہر میں داخل ہوگئے۔ یہاں پہنچنے پر کچھ دوستوں نے ہمارا والہانہ استقبال کیا۔ ہم ان کے ساتھ ان کے گھر چلے آئے جہاں ہمارا قیام تھا۔ سفر کی وجہ سے کافی تھک چکے تھے اس لیے فوراً کھانا کھا کر سوگئے۔

علی الصبح بیدار ہوکر ہم نے ناشتہ کیا اور اپنے طے کردہ پروگرام کے مطابق کچورا کی طرف روانہ ہوگئے۔ اسکردو شہر سے تقریباً 19 کلومیٹر کی مسافت پر موجود کچورا جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ اور نجی گاڑیوں سمیت دیگر سواریاں باآسانی مل جاتی ہیں۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد ہم کچورا کی حدود میں داخل ہوئے اور سب سے پہلے ہم نے کچورا میں واقع شنگریلا ریزورٹ جانے کا فیصلہ کیا جسے زیریں کچورا جھیل بھی کہا جاتا ہے۔

شنگریلا ریزورٹ 1983ء میں تعمیر ہوا جبکہ اس کی بنیاد بریگیڈیئر (ر) محمد اسلم خان نے رکھی تھی۔ اس علاقے کی خوبصورتی کی بات کی جائے تو اس ریزورٹ کے درمیان ایک جھیل واقع ہے جس کا اگر فضائی نظارہ کیا جائے تو یہ دل کی شکل میں ہے جبکہ اس جھیل کے چاروں اطراف ہوٹلز، سرسبز باغات اور خوبصورت پہاڑ موجود ہیں۔

اسکردو میں شنگریلا، سیاحوں کے لیے بنایا جانے والا سب سے پہلا ریزورٹ تھا۔ ملکی اور غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد یہاں کا رخ کرتی ہے۔ اس جگہ کی ایک اور خاص بات یہاں پر جہاز کی موجودگی ہے۔ اس جہاز میں ہوٹل بنایا گیا ہے۔ اس جہاز کی تاریخ کی بات کی جائے تو یہ جہاز Orient Skyliner کا طیارہ ڈی سی-3 تھا جس نے ٹیکنیکی خرابی کے باعث اسکردو، دریائے سندھ کے کنارے ریتیلی زمین پر ایمرجنسی لینڈنگ کی تھی۔ اس طیارے میں سوار تمام مسافر محفوظ رہے جس کے بعد یہ جہاز کافی عرصے تک اسی مقام پر کھڑا رہا۔

بریگیڈیئر اسلم نے سول ایوی ایشن سے رابطہ کرکے اس جہاز کو خریدنے کی بات کی۔ ابتدائی طور پر وہ آمادہ نہیں ہوئے لیکن بلآخر اس جہاز کو بریگیڈیئر اسلم کو فروخت کر ہی دیاجس کے بعد مقامی افراد کی مدد سے اس جہاز کو شنگریلا جھیل کے پاس لاکر کھڑا کیا گیا۔ شنگریلا ریزورٹ کے قیام سے قبل بریگیڈیئر اسلم نے اسے اپنی قیام گاہ بنایا جہاں وہ اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیاں گزارتے تھے لیکن جب بعد میں یہاں باقاعدہ ریزورٹ بنایا گیا تو پھر اس جہاز کو بھی اس میں شامل کرکے سیاحوں کے لیے اس مقام کو کھول دیا گیا۔

ہم بھی شنگریلا ریزورٹ پہنچے اور پھر جھیل کی سیر کی۔ یہاں کچھ وقت گزارنے کے بعد ہم نے کچورا کی بالائی جھیل کا رخ کیا اور گاڑی میں سوار ہوگئے۔ وہ پل جو ہمیں کچورا کے بالائی حصے کی طرف لے جاتا، وہاں مرمت کا کام جاری تھا۔ لہٰذا ہم نے اپنی گاڑی وہیں روکی اور پیدل سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم کچورا گاؤں کے درمیان سے گزرتے ہوئے جھیل پر پہنچے۔ کہا جاتا ہے کہ مختلف چشموں کے ذریعے اس جھیل میں پانی جمع ہوتا ہے۔ موسمِ سرما میں یہ جھیل جم جاتی ہے جبکہ گرمیوں میں یہاں کا پانی گرم ہوجاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس جھیل میں نہاتے ہوئے کئی مقامی افراد اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگ یہاں نہانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔

یہاں پر سیاحوں کے لیے اسپیڈ بوٹ (کشتی) بکی سہولت بھی موجود ہے جس پر سوار ہوکر آپ جھیل کی سیر کرسکتے ہیں۔ اس جھیل کے نیلے رنگ کے پانی میں پہاڑوں کا عکس نمایاں انداز میں نظر آتا ہے۔ پانی اتنا شفاف ہے کہ زمین کی سطح دیکھی جاسکتی ہے۔ اس جھیل کا پانی بہت خاموش ہے اور لوگ کہتے ہیں پانی جتنا خاموش ہو اتنا ہی خطرناک ہوتا ہے۔ اس جھیل میں آپ مچھلیاں بھی پکڑ سکتے ہیں جبکہ یہاں ساتھ ہی ریسٹورنٹ میں کھانے کے شوقین افراد کے لیے مختلف پکوانوں میں ٹراوٹ فش بھی دستیاب ہے۔ چائے بسکٹ کھاتے ہوئے ہم یہاں کے دلکش موسم اور خوبصورتی سے لطف اندوز ہوئے جس کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی۔

واپسی کے بعد ہم نے اگلے روز سدپارہ ڈیم اور دیوسائی جھیل جانے کا منصوبہ بنایا جوکہ سطح زمین سے تقریباً 14 ہزار فٹ کی بلندی پر ہے اور اس مقام کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ اگلی قسط میں آپ کو سدپارہ اور دیوسائی لے چلیں گے کہ جہاں قدرت کے حسین نظارے دل موہ لیتے ہیں۔


تصاویر: لکھاری

منتظر ایوب

لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر بھی ہیں۔ انہیں ٹوئٹر اور انسٹاگرام imuntazirayub@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔