نقطہ نظر

خلا میں بھیجا گیا سیٹلائٹ، پاکستان کے لیے کس طرح مفید ثابت ہوسکتا ہے؟

میں سوچتی تھی کہ ترقی پذیر ممالک کیسے اپنے قیمتی اثاثے خلائی پروگرامز پر لگا سکتے ہیں جب ان کی عوام بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہو لیکن اب وقت، ٹیکنالوجی اور میرے خیالات بدل چکے ہیں۔

اپنے 7 سالہ بیٹے کی وجہ سے خلائی ٹیکنالوجی میں میری بھی دلچسپی پیدا ہوگئی ہے۔ ہم نے چینگ 6 مشن میں خوب دلچسپی لی اور پاکستان کے پہلے لونر سیٹلائیٹ کی جانب سے بھیجی جانے والی چاند کی ابتدائی تصاویر سے محظوظ ہوئے۔ دسمبر میں پاکستان کی جانب سے پہلی قومی خلائی پالیسی سامنے آنے کے بعد یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ لیکن کیا اس حوالے سے ہم اپنی رفتار برقرار رکھ پائیں گے؟

میں خلائی مشنز پر سالوں سے سوالات اٹھاتی آرہی تھی۔ میں سوچتی تھی کہ ترقی پذیر ممالک کیسے اپنے قیمتی اثاثے خلائی پروگرامز پر لگا سکتے ہیں جب ان کی عوام بنیادی ضروریات زندگی بہ مشکل پوری کر پا رہی ہو۔ لیکن اب وقت اور ٹیکنالوجی بدل چکے ہیں۔ خلائی ٹیکنالوجی کو اب عوام کی بہبود کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اپنے ملک کے سیٹلائٹ کی تیاری اور مقامی سیٹلائٹس کی لانچنگ بروقت اور اسٹریٹجک ہے۔ یہ سمجھیں کہ میرے خیالات اب بدل چکے ہیں۔

ہماری خلائی پالیسی کے آغاز نے سائبر سیکیورٹی اور ٹیلی کمیونیکیشنز کے لچکدار نظام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ لیکن خلائی ٹیکنالوجی ترقی پذیر ممالک کے لیے بہت سے دیگر فوائد بھی پیش کرتی ہے۔ 2020ء کی لندن اکنامکس کی رپورٹ اشارہ کرتی ہے کہ معیشتوں کو فروغ دینے اور ماحول کو محفوظ بنانے میں درکار اہم ڈیٹا کو اکٹھا کرنے میں خلائی ٹیکنالوجی سستے آپشنز پیش کرتی ہے۔ اب خوراک کے تحفظ کے انتظامات، موسمیاتی تبدیلی سے متوقع خطرات کی پیش گوئی، جنگلاتی وسائل کی نگرانی اور آفات سے نمٹنے کی تیاری میں خلائی ٹیکنالوجی مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔

ترقی پذیر ممالک اپنے سیٹلائٹس کو پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلاؤ پر نظر رکھنے، پانی کے قلت والے خطوں میں آب پاشی کے طریقوں اور شہر کاری میں استعمال کررہے ہیں۔ خلا سے ریئل ٹائم سیٹلائٹ ڈیٹا کی فراہمی سے ٹیلی ہیلتھ، دیہی بینکاری اور ورچول تعلیم میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔ جامع انداز میں کہیں تو معیشتیں اور معاشرے اب بہتری کے لیے ستاروں کی جانب دیکھتے ہیں۔

پاکستان پہلے ہی طوفانوں کو ٹریک کرنے اور زرعی منصوبہ بندی میں بین الاقوامی سیٹلائٹس کو استعمال کرتا آیا ہے لیکن یہ حقیقت کہ ہم کس طرح موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہورہے ہیں، اس نے ضروری بنا دیا تھا کہ ہم مقامی خلائی انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کریں تاکہ ہم کم قیمت پر سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے استعمال کے مختلف طریقوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ مگر یہ کرنے کے لیے ہمیں اپنا خلائی پروگرام درست طریقے سے آگے بڑھانا ہوگا۔

2022ء میں برطانوی تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس کے لیے لکھتے ہوئے جنوبی افریقہ کی نیشنل اسپیس ایجنسی کے سابق سی ای او ویل منسامی نے دلیل دی کہ ترقی پذیر ممالک کو اپنے اسپیس پروگرام سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے 4 عناصر پر غور کرنے کی ضرورت ہے جن میں انسانی سرمایہ یعنی افرادی قوت کی دستیابی، کمرشل صلاحیت کے مطابق صنعتی سیکٹر میں سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی انفرااسٹرکچر کی موجودگی اور بین الاقوامی تعاون سے فائدہ اٹھانے کی جستجو شامل ہیں۔ اگر اس زاویے سے دیکھا جائے تو ہمارے خلائی عزائم کو کئی اہم چیلنجز درپیش ہیں۔

اس حوالے سے سب سے بڑا چیلنج اسٹیم ایجوکیشن (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی) کا فقدان ہے۔ اپنے ملک کی جانب سے لی گئی چاند کے تاریک حصے کی تصاویر آئیں گی اور جب پہلے پاکستانی کو خلا میں بھیجنے کے بارے میں بات ہوگی تو یہ سائنسدانوں کی نئی نسل کو مقامی اسپیس پروگرامز چلانے کی ترغیب دے سکتی ہے۔ لیکن یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ایسا تعلیمی کلچر موجود ہو جو سائنسی تجسس کی قدر کرتا ہو اور شعبہ تعلیم کو مضبوط بناتا ہو۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس اس کا فقدان ہے۔ اگرچہ ہماری اسپیس ٹیکنالوجی اس فرق کو تسلیم کرتی ہے لیکن پاکستان میں اسٹیم ایجوکیشن تک رسائی اور اس کے معیار کو بہتر بنانے کی امیدیں انتہائی کم ہیں۔

ترقی پذیر ممالک کو خلائی انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ شعبہ براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو متوجہ کرسکتا ہے، نئی صنعتیں بنا سکتا ہے اور پیداواری سہولیات کو اپ گریڈ و اپ ڈیٹ کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔ یہ صرف اسی صورت میں درست ثابت ہوسکتا ہے جب کوئی ملک مقامی انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری اور دیگر بین الاقوامی ممالک سے سستے سیٹلائٹس درآمد کرنے کی قیمت کے درمیان درست توازن قائم کرسکے۔ بدقسمتی سے ہمارے اسپیس پروگرامز کی فنڈنگ انتہائی کم ہے (سال 2023ء میں بھارتی خلائی ایجنسی کا بجٹ ایک ارب 50 کروڑ ڈالرز تھا جبکہ اس کے مقابلے میں اسپارکو کا بجٹ صرف 2 کروڑ 60 لاکھ ڈالرز تھا) تو یہ امکان انتہائی کم ہے کہ ہم درست انداز میں یہ توازن قائم کرسکیں گے۔

اس پروگرام کا ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ پائیدار پالیسی سازی میں اکٹھا کیے گئے ڈیٹا کی مدد لینے کے بجائے سائبر سیکیورٹی، نگرانی، اپنے دفاعی، سیاسی و صنعتی رازوں کو محفوظ بنانے اور خلائی دفاع کی صورت میں شاید یہ پروگرام سیکیورٹی پر زیادہ مرکوز ہوجائے۔ اس حوالے سے ارادے اہم ہوتے ہیں۔ پاکستان کو فلپائن کی مثال سے سبق لینا چاہیے جس نے 2013ء میں تباہ کُن طوفان ہیان کے بعد ممکنہ آفات سے نمٹنے کی تیاری کے تحت اسپیس پروگرام لانچ کیا۔ ہماری اسپیس پالیسی کو ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہے جو عوام کی بنیادی خدمات کی فراہمی اور ان کی زندگی کو پائیدار بنانے پر مرکوز ہو۔

آخر میں پاکستان کو اگر گلوبل ساؤتھ (براعظم جنوبی امریکا، افریقہ، ایشیا اور آسٹریلیا) کے ساتھ خلا پر تعاون کا موقع ملے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایک جانب جہاں بین الاقوامی قوتیں خلائی دوڑ میں آگے ہیں، ترقی پذیر ممالک ان کے پیچھے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ مثال کے طور پر افریقی یونین نے اپنے ایجنڈا 2063ء کے 15 کلیدی پروگرامز میں خلائی حکمتِ عملی کو بھی شامل کیا ہے اور اسی مقصد کے تحت اس نے حالیہ سالوں میں پورے براعظم میں 20 سے زائد قومی خلائی ادارے بھی قائم کیے ہیں۔

گلوبل ساؤتھ کے خلائی منصوبے ان ٹیکنالوجی پر مرکوز ہیں جو جامع ٹیلی کمیونیکیشنز اور موسمیاتی خطرات کی تیاری کی حمایت کرتے ہیں جو پاکستان کی کامیابی کے لیے بھی اہم ہیں۔ ہمیں اپنے تمام سیٹلائٹس کو ایک ہی (چینی) ٹوکری میں ڈالنے کے حوالے سے احتیاط سے کام لینا چاہیے اور اس کے بجائے اس بات کو یقینی بنائیں کہ خلائی پروگرامز پر تعاون کو خارجہ اور اقتصادی ترقی کی پالیسیوں کے تحت متنوع بنایا جائے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ہما یوسف

لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس huma.yusuf@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔