ایشیائی ترقیاتی بینک کی مدد مالیاتی فنڈ کے پروگرام سے منسلک
ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کے پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر یونگ یی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ میری بات چیت اور موجودہ حکومت کے ساتھ ہونے والی گفتگو فیصلہ کن تھی، میں بہت پر امید ہوں کہ فنڈ کی جانب سے ایک اور کامیاب پروگرام ہو گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس ہفتے تبلیسی میں اے ڈی بی کے 57 ویں سالانہ اجلاس کے موقع پر ایک خصوصی انٹرویو میں واضح طور پر یہ بتاتے ہوئے کہ اے ڈی بی کی مدد صرف فنڈ سے کلین چٹ کے ساتھ ہی ممکن ہوگی، ونگ یی نے پاکستانی معیشت کے لیے امید کا اظہار کیا، پچھلے سال کی غیر یقینی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے جون میں اعلان کردہ آئی ایم ایف معاہدے کو ایک ’معجزہ‘ بھی قرار دے دیا، تاہم اس کے بعد انہوں نے کہا کہ نگران حکومت نے فنڈ کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اچھا کام کیا۔
اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے مزید بتایا کہ آئی ایم ایف کے معاہدے کے ساتھ، مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 3 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے میں 4.4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 9 ارب ڈالر سے زیادہ ہو گئے ہیں ۔
یونگ یی کا کہنا تھا کہ ملک اب بھی آئی سی یو میں ہو سکتا ہے لیکن اس کے فوری طور پر لیکویڈیٹی بحران کو حل کر دیا گیا اور اسے ڈیفالٹ ہونے سے بچالیا گیا ہے، اس سے مارکیٹس کو کچھ اعتماد حاصل ہوا ہے۔
اسٹاک ایکسچینج کے ریکارڈز
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی متواتر نئی بلندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے یونگ یی نے مشاہدہ کیا کہ اس سے قبل، جب یورو بانڈ کی ادائیگی واجب الادا تھی، میڈیا میں اس بات کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ آیا ملک ادائیگی کرنے کے قابل ہو گا یا نہیں، اس طرح کے تبصروں نے تناؤ پیدا کردیا اور مارکیٹوں میں اتار چڑھاؤ شروع ہوگیا جس سے شرح مبادلہ میں بھی اتار چڑھاؤ پیدا ہوا۔
تاہم اس بار اپریل میں ایک ارب ڈالر یورو بانڈ کی ادائیگی بنا کسی تناؤ کے بروقت کر دی گئی جو مارکیٹ کے بہتر اعتماد کی نشاندہی کرتا ہے، دیگر مثبت اشارے، جیسے بیرونی کھاتوں کے خسارے میں کمی اور ترسیلات زر کی وصولی نے بھی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بہتر کیا ہے، تاہم مالیاتی خسارے کے چیلنجز بدستور موجود ہیں، ان کے پیچھے ایک بڑی وجہ سود کی بلند شرح اور قرض کا زیادہ بوجھ ہے۔
’جو جانتے ہیں اس پر عمل کریں‘
اے ڈی بی کے پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر یونگ یی نے بتایا کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے ساتھ میری پہلی ملاقات میں انہوں نے اصلاحات کو لاگو کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے اپنی وابستگی ظاہر کی، انہوں نے وزیر خزانہ کے حالیہ بیانات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو مزید معاشی نسخوں کی ضرورت نہیں ہے، عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان جانتا ہے کہ اسے کیا کرنے کی ضرورت ہے لیکن وہ کبھی نہیں کرتا، جو جانتے ہیں اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
جبکہ معیشت بحال ہو رہی ہے تاہم اب بھی آگے بڑھنے کے لیے غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے، اس غیر یقینی صورتحال کو دور کرنے کا انحصار حکومت کی اقتصادی اور ساختی اصلاحات کو نافذ کرنے کے عزم اور صلاحیت پر ہے۔
خصوصی انتظامات
یونگ یی نے معیشت کی بحالی میں سرمایہ کاری کی اہمیت اور خصوصی سرمایہ کاری کونسل کے کردار پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے بارے میں میری سمجھ یہ ہے کہ یہ کچھ ٹارگٹڈ ممالک سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کا ایک خاص انتظام ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے نقطہ نظر سے، ایس آئی ایف سی ایک فوری قلیل مدتی حل ہو سکتا ہے تاہم پاکستان کو اب بھی غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے طویل المدتی منظم حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے بہتر ضوابط اور شفافیت کے ساتھ مجموعی طور پر قابل عمل ماحول کی ضرورت ہوگی۔
ایس آئی ایف سی ریکو ڈک جیسے ماضی کے ناکام واقعات کو دیکھتے ہوئے کم از کم مختصر مدت میں ملک کی سرمایہ کاری کی صلاحیت کو ظاہر کر سکتا ہے، جسے پھر دوسرے ممالک کے لیے مزید وسیع کیا جا سکتا ہے۔
غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں ایک اہم عنصر فرموں کی ملک سے باہر منافع واپس بھیجنے کی صلاحیت ہے۔
اس ہی وقت سرمایہ کاروں کو یقین ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں پیسہ کمانا ممکن ہے، منافع کی واپسی ایک مشکل کام ہے۔
رئیل اسٹیٹ کی غیر پیداواری صلاحیت
اے ڈی بی کے پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر یونگ یی نے ریمارکس دیے کہ ملک کو اپنی آمدنی بڑھانے اور اخراجات کو معقول بنانے کی ضرورت ہے، انہوں نے مثال کے طور پر رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو نمایاں کیا جہاں بہت سی بچتیں کی جاتی ہیں، رئیل اسٹیٹ سیکٹر صرف مالی اضافہ ہے جس میں کوئی ویلیو ایڈیشن نہیں ہے، اگر ملک اس کے بجائے اپنے قدرتی وسائل میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو ملک آگے بڑھنا شروع کر دے گا۔
انہوں نے رائے دی کہ مہنگائی کم ہورہی ہے اور اگر یہ رجحان جاری رہا تو مانیٹری پالیسی کی شرح کم ہو جائے گی جس کے نتیجے میں قرض کی خدمت کا بوجھ کم ہو جائے گا اور زیادہ مالی گنجائش پیدا ہو گی، انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس سے پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے سرمایہ کاری اور قرض لینے میں بھی آسانی ہوگی۔
بقایا وعدے
اے ڈی بی ان اداروں میں شامل ہے جنہوں نے 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد مدد کا وعدہ کیا تھا، لیکن تقریباً پوری ہی رقم ابھی تک ادا ہونا باقی ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک نے تقریباً 1.5 ارب ڈالر کا وعدہ کیا تھا، جس میں سے صرف تقریبا 10.8 کروڑ ڈالر جاری کیے گئے ہیں، میڈیا رپورٹ کے مطابق اس سال مزید 34 کروڑ ڈالر کی توقع ہے۔
وعدہ کردہ رقم کی ادائیگی میں تاخیر سے متعلق یونگ یی نے کہا کہ جس رقم کا وعدہ کیا گیا تھا وہ تعمیر نو کے لیے تھی اور اس عمل میں جلدی نہیں کی جا سکتی،نقصانات کا اندازہ زمینی حقائق کے ساتھ ساتھ نئے موسمیاتی خطرے کے پروفائل اور ان علاقوں میں دوبارہ سیلاب آنے کے امکان کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنا ہوگا۔
اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ اس سال کے آغاز تک کچھ علاقوں میں پانی اب بھی کھڑا تھا، انہوں نے کہا کہ فزیبلٹی اسٹڈی سے پہلے نئے موسمیاتی خطرے کے پروفائل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، کچھ سڑکوں کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد پروکیورمنٹ کا عمل، کنٹریکٹ ایوارڈ، اور آخر میں رقم تقسیم ہوگی، یہ پورا عمل لمبا ہے۔
یونگ یی نے پاکستان کی طویل مدتی اقتصادی ترقی کے لیے کئی اہم شعبوں کی نشاندہی کی، ان میں افراط زر کو کنٹرول کرنا، مالیاتی خسارے کو کم کرنا اور برآمدی بنیاد کو متنوع بنانا شامل ہے۔