جسٹس بابر ستار نے وکلا کی ہڑتال، درخواست گزاروں کا عدالتوں میں داخلہ بند کرنے کی مذمت کردی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے وکلا کی اعلیٰ تنظیموں کی جانب سے ملک گیر ہڑتال کی کال کے باعث وکلا اور فریقین کو عدالتوں میں داخلے سے روکنے کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے انصاف کی راہ میں رکاوٹ قرار دے دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس پیشرفت سے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جسٹس بابر ستار نے 3 ججوں پر مشتمل انتظامی کمیٹی کو ایک خط لکھا ہے جس میں ہڑتال کی کال کے باعث وکلا اور فریقین کو عدالتوں میں داخلے سے روکنے کے معاملے کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔
ہڑتال کی کال قانونی برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دی گئی تھی جس میں وکلا لاہور میں سول عدالتوں کی ’غیر قانونی تقسیم‘ کے خلاف پرامن احتجاج کر رہے تھے تاہم پنجاب پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے بعد وکلا نے اس واقعہ کو ’ان کے خلاف ظلم‘ قرار دے دیا تھا۔
اس کے بعد پاکستان بار کونسل (پی بی سی) اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) نے بدھ کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا اور سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور ماتحت عدلیہ سمیت تمام عدالتوں کے لیے پورے دن کی ملک گیر ہڑتال کی کال جاری کی۔
ہڑتال کی کال کے باعث وکلا نے عدالتوں میں پیش ہونے سے گریز کیا اور بعض مواقع پر قانونی برادری کے نمائندوں نے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔
جن فریقین کے مقدمات مہینوں بعد طے ہونے تھے انہیں ججوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے وکلا کی غیر حاضری پر کئی مقدمات بھی خارج کر دیے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس بابر ستار نے خط میں کسی بھی وکیل اور مدعی کو عدالت میں پیش ہونے سے زبردستی روکنے کو انصاف تک رسائی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے مترادف قرار دیا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ انتظامی کمیٹی نے ڈپٹی رجسٹرار آف سیکیورٹی سے ان واقعات پر رپورٹ طلب کی ہے جن میں وکلا کے نمائندوں نے قانونی چارہ جوئی کے لیے آئے افراد اور ان کے ساتھیوں کو زبردستی روکا۔
تاہم، ایک عدالتی اہلکار نے کہا کہ وکلا یا مدعیان کی طرف سے ایک بھی شکایت نہیں آئی کہ وکلا کی ہڑتال کی وجہ سے ان کی انصاف تک رسائی سے انکار کیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر ریاست علی آزاد نے رابطہ کرنے پر کہا کہ وکلا ریاست یا دیگر گروہوں کی بالادستی کے خلاف پرامن طریقے سے احتجاج کرنے کے لیے ہڑتال کی کالیں جاری کرتے ہیں، احتجاج کی وجہ سے وکیل کی عدم موجودگی کوئی رکاوٹ نہیں ہے، کیونکہ مدعی عدالت میں پیش ہو سکتا ہے۔
ریاست علی آزاد نے نشاندہی کی کہ عدالتی سمن بالکل واضح ہیں، وہ واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ مدعی ذاتی طور پر یا کسی وکیل کے ذریعے پیش ہو سکتا ہے، درخواست گزار عدالتی کارروائی میں شرکت کے لیے کسی پابند نہیں تھے۔