پاکستان

کم عمری میں شادی سے متعلق اہم فیصلہ، عدالت کا نکاح رجسٹرار کیخلاف کارروائی کا حکم

کمسن بچوں کی شادی روکنے کے حوالے سے واضح احکامات جاری کر رکھے ہیں، نکاح کے وقت دلہن کی عمر کی دستاویزات ہونا ضروری ہیں، لاہور ہائی کورٹ

لاہور ہائی کورٹ نے کم عمر لڑکیوں کا نکاح رجسٹر کرنے کے حوالے سے اہم فیصلہ دیتے ہوئے نکاح رجسٹرار کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔

’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس انوار الحق ہنوں نے شہری عظمت بی بی کی درخواست پر یہ اہم فیصلہ جاری کیا۔

عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کمسن بچوں کی شادی روکنے کے حوالے سے واضح احکامات جاری کر رکھے ہیں، نکاح کے وقت رجسٹرار ، نکاح خوان اور گواہوں کے پاس دلہن کی عمر کے متعلق دستاویزات موجود ہونا ضروری ہیں۔

اپنے فیصلے میں عدالت نے مزید کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود کمسن بچوں کی شادیاں جاری ہیں، بظاہر نکاح رجسٹرار اور نکاح خواں عدالتی ہدایات کی پیروی نہیں کر رہے۔

لاہور ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ متعلقہ ادارے ایسے نکاح رجسٹرار اور نکاح خوان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

درخواست گزار خاتون عظمت بی بی نے اپنی 14 سالہ بیٹی کی بازیابی کے لیے عدالت عالیہ میں درخواست دائر کی تھی۔

واضح رہے کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ (ترمیمی) بل 2022 کی ایک کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ہر سال 18 سال سے کم عمر 21 فیصد لڑکیوں کو معیاری تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے بجائے اُن کی شادی کردی جاتی ہے۔

اس کانفرنس میں مقررین نے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں ہر سال 19 لاکھ لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کردی جاتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔

کانفرنس کا اہتمام خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن نے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کے تعاون سے کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے مختلف اسٹیک ہولڈرز اور مقررین کو مدعو کیا گیا تھا جن میں وزارت انسانی حقوق، وزارت قانون و انصاف، وومن پارلیمانی کاکس، قانونی مدد اور انصاف کی اتھارٹی، بچوں کے حقوق کے حوالے سے نیشنل کمیشن کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتی نمائندوں کو بھی مدعو کیا گیا۔

بچیوں کی کم عمری میں شادیاں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے اہم مسائل میں سے ایک ہے، ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے مجوزہ بل چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 میں کچھ ضروری ترامیم متعارف کروائی گئی ہیں۔

اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے مقررین نے کہا تھا کہ یہ بل وقت کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا مقصد بچوں کے آئینی حقوق کو یقینی بنانا ہے، آئین کا آرٹیکل 25 (2) اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ریاست بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی انتظامات کرسکتی ہے۔

اس وقت کے انسانی حقوق کے وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے کہا تھا کہ پاکستان میں کم عمری میں شادیوں سے ملک میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور خاص طور پر بچیوں کی صحت پر منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کم عمر لڑکیاں جنسی اور جسمانی استحصال، طبی پیچیدگیوں اور دیگر جسمانی اور سماجی منفی نتائج جیسے خطرات سے دوچار ہیں، اس معاملے پر عوام میں بیداری پیدا کرنا ضروری ہے خاص طور پر ان ممالک میں جہاں کم عمری میں شادیوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔

دوسری جانب گزشتہ برس اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کم عمری کی شادیوں میں عالمی سطح پر کمی کے حوالے سے جنوبی ایشیا سرفہرست ہے لیکن اس کے مکمل خاتمے کے لیے اب بھی 55 سال درکار ہیں، 2030 تک کم عمری کی شادی کے خاتمے کے اقوام متحدہ کے ہدف کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں اس سلسلے میں اصلاحات کی رفتار کو سات گنا تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جنوبی ایشیا میں کمر عمری کی شادیوں میں کمی کے حوالے سے مالدیپ اور سری لنکا کے بعد پاکستان تیسرے نمبر پر ہے لیکن بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، نیپال اور بھوٹان سے آگے ہے۔

کہا گیا تھا کہ جاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں اب بھی تقریباً ایک کروڑ 90 لاکھ کم سن دلہنیں ہیں کیونکہ ملک میں ہر 6 میں سے ایک نوجوان لڑکی کی شادی کم عمری میں کر دی جاتی ہے۔

پاکستان میں شادی کے لیے کم از کم قانونی عمر 18 سال ہے لیکن تقریباً 18 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال سے پہلے کر دی جاتی ہے، ایک دلہن اور اس کے دولہے کے درمیان عمر کا فرق اکثر 40 سے 60 سال کے درمیان ہوتا ہے، 51 فیصد کے ساتھ بنگلہ دیش میں کم عمری کی شادیوں کی شرح جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے، مالدیپ میں 2 فیصد کے ساتھ یہ شرح سب سے کم ہے۔

پارک لین، توشہ خانہ ریفرنس: آصف علی زرداری کو صدارتی استثنیٰ مل گیا

کامران اکمل کا بابر الیون پر ’ذاتی مقاصد‘ کو ترجیح دینے کا الزام

رومانوی کامیڈی فلم ’پوپی کی ویڈنگ‘ ریلیز