پاکستان

مان لیں کہ الیکشن میں دھاندلی کی یا عوام نے 9 مئی کا بیانیہ مسترد کردیا، فضل الرحمٰن

قانون میں کوئی رول نہیں ہے کہ فوج سیاست پر بات کرے، اپنے معاملات ٹھیک کرو اور سیاست سے دستبردار ہو جاؤ، پشاور میں ملین مارچ سے خطاب

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پاک فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یا تو کہہ دیں کہ ہم نے دھاندلی کی ہے اور اگر تم نے دھاندلی نہیں کی عوام نے آپ کے 9مئی کے بیانیے کو مسترد کردیا۔

پشاور میں جمعیت علمائے اسلام(ف) کے ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آپ نے ایک بار پھر پاکستان کے سیاپ و سفید کے مالکوں کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ ہم اس ملک کے لیے آپ کی جعلی اسمبلیوں کو قبول نہیں کررہے اور ان کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ آپ کی دھاندلیوں کی پیداوار حکومتیں عوام کی نمائندہ نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ حکومتیں اور اسمبلیاں اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ تو ہو سکتی ہیں لیکن اسے پاکستان کے عوام کا نمائندہ کہنا میرے نزدیک پاکستان کے عوام کی توہین ہے، ہم اپنی قوم کی توہین برداشت نہیں کر سکتے۔

آئی ایس پی آر کے ترجمان کی پریس کانفرنس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے جے یو آئی(ف) کے سربراہ نے کہا کہ ترجمان نے کہا کہ الیکشن کے حوالے سے فوج کا کوئی کردار نہیں، میں بھی آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آئین اور قانون میں کوئی رول نہیں ہے کہ فوج سیاست پر بات کرے اور میں بھی مانتا ہوں کہ آئین و قانون کی رو سے آپ کا کوئی کردار نہیں لیکن سارا رونا ہی یہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترجمان کہتے ہیں کہ فوج پر تنقید کرنا ملک سے بغاوت اور ملک کے خلاف بات کرنا ہے، یہ میں بھی جانتا ہوں، فوج میری ریاست کی محافظ ہے لیکن جب آپ حلف اٹھاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ میں سیاست میں حصہ نہیں لوں گا اور یہی وجہ ہے کہ جب تم سیاست میں حصہ لیتے ہو تو پھر تم پاکستان کے فوجی نہیں رہتے، اس لیے میں تم پر تنقید کرتا ہوں۔

انہوں نے تنقید کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان بنانے میں تمہارا کوئی کردار نہیں ہے، پاکستان کو ہندوستان کے مسلمانوں نے قربانیاں دے کر بنایا لیکن تمہارا کردار پاکستان کو توڑنے میں ہے، 1971 میں 90ہزار سے زائد فوجی سرنگوں ہوئے اور تمہارے کردار نے ہماری ناک کاٹی تھی، اب اپنے معاملات کو ٹھیک کرو، سیاست سے دستبردار ہو جاؤ اور اپنی پوزیشن پر واپس چلے جاؤ۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج کو قبائلی علاقوں سے نکلنا ہو گا، آپریشنوں کے نام پر ہمیں اپنی خیر خواہی نہ دکھاؤ، 2010 سے آپریشن شروع کیے اور 14، 15 میں ہمیں امن دینے کے نام پر قبائل کو تباہ و برباد کردیا، میں نے اس وقت کہا تھا کہ یہ حکمت عملی ٹھیک نہیں اور اگر میری رائے ٹھیک نہیں تھی تو آج تک دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہوئی، آج تک دہشت گرد کیوں موجود ہیں.

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں نے فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کی مخالفت کی تھی، آپ نے کہا تھا کہ ہم 10 سال میں قبائلی علاقوں کو ایک ہزار ارب روپے دیں گے لیکن 8سال میں آپ نے پورے 100 ارب بھی نہ دیے، آج بھی آپ ریفرنڈم کرا لیں تو پتا چل جائے گا کہ وہاں کے لوگ پرانے نظام کو اپنانا چاہتے ہیں یا خیبر پختونخوا کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھاکہ نے کہا تھا کہ ریکوڈک بلوچوں کی ملکیت ہے اور اس پر قانون سازی جائز نہیں، یہ مناسب نہیں کہ آپ 18ویں ترمیم کی مخالفت کر کے ریکوڈک کو بین الاقوامی کمپنیوں کے حوالے کریں، اس کے مفادات کو بیچیں اور بلوچستان کے لوگوں کو محروم کریں، میں نے یہی جرم کیا تھا کہ اپنے قوم کے لوگوں کے حق کی بات کی تھی اور تم نے فیصلہ کر لیا کہ یہ شخص ہر مرحلے پر ہمارے فیصلے میں رکاوٹ بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دھاندلی کے نتیجے میں جو مینڈیٹ سامنے آیا اس کے بعد آپ کے پاس دو راستے ہیں، یا تو کہہ دیں کہ ہم نے دھاندلی کی ہے جیسا کہ ہمارا دعویٰ ہے اور اگر تم نے دھاندلی نہیں کی عوام نے آپ کے 9مئی کے بیانیے کو مسترد کردیا۔

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہا کہ ہم 8فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہیں، بات دلائل سے ہوگی اور دھونس دھمکی نہیں چلے گی، اگر آپ کا خیال ہے کہ دھمکیوں بھرا بیان دے کر ہمیں خاموش کردیں گے تو ہم آپ کو خاموش کرنے آئے ہیں۔