صوبے ممکنہ طور پر600 ارب روپے وفاق کو فراہم نہیں کرسکیں گے
سرکاری اداروں (ایس او ایز) منافع اور ڈیوڈنڈ کی آمدنی رواں مالی سال کی پہلی تین سہ ماہیوں (جولائی تا مارچ) میں دگنی سے بھی زیادہ ہوچکی ہے جبکہ ماضی کے تجربات سے اخذ کیا جائے تو اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ صوبے اپنے وعدے کے مطابق وفاق کو 600 ارب روپے کیش سرپلس دیں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے ابتدائی9 ماہ (جولائی تا مارچ) میں ایس او ایز کو دیے گئے قرضوں سے منافع کی مد میں تقریباً 227 ارب روپے اکٹھے کیے ہیں جو گزشتہ مالی سال میں 85 ارب روپے کے ہونے والے منافع کے مقابلے میں تقریباً 170 فیصد زیادہ ہے۔
اسی طرح متعدد ایس او ایز اور پرائیویٹائزڈ اداروں میں حکومتی شیئر ہولڈنگ سے حاصل ہونے والا منافع گزشتہ سال جولائی یا مارچ 52 ارب روپے تھا جبکہ یہ 64 ارب تک پہنچا ہے، جو23 فیصد اضافہ ہے، ڈیوڈنڈ اور منافع دونوں سے مجموعی آمدنی 9 ماہ میں تقریباً 291 ارب روپے تک ہو چکی ہے، جو گزشتہ مالی سال کے 137 ارب روپے کے مقابلے میں 112 فیصد اضافہ ہے۔
اسی طرح جولائی تا مارچ میں پالیسی ریٹ ریکارڈ 22 فیصد تک پہنچنے کی وجہ سے وفاقی حکومت نے بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے 972 ارب روپے سے زائد کا غیر متوقع منافع کمایا، جو ایک سال پہلے صرف 371 ارب روپے تھا، یوں منافع کی شرح میں 162 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
غیرمتوقع طور پر ملنے والے منافع کا ایک اور ذریعہ تیل اور گیس کا سیکٹر رہا، 9 ماہ میں تیل اور گیس پر 128 ارب روپے کی رائلٹی سے ظاہر ہوتا ہے، جوگزشتہ سال 88 ارب 50 کروڑ روپے کے مقابلے میں 45 فیصد زیادہ ہے۔
پٹرولیم لیوی سے بھی اچھی آمدنی ہوئی جو گزشتہ مالی سال 362 ارب روپے سے تقریباً دوگنا بڑھ کر 720 ارب روپے ہوگئی، گیس ڈیولپمنٹ سرچارج نے اس سال قومی خزانے میں تقریباً 19 ارب روپے کا حصہ ڈالا جو ایک سال قبل 11 ارب 70 کروڑ روپے تھا۔
مالیاتی اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ چاروں صوبوں نے مشترکہ طور پر وفاقی حکومت کو 435 ارب روپے کا کیش سرپلس فراہم کیا، یہ سرپلسز صوبوں کی جانب سے وفاقی حکومت کو مجموعی قومی مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 6.53 فیصد پر رکھنے کے لیے 600 ارب روپے کی اضافی رقم فراہم کرنے کے وعدوں کے مطابق ہیں۔
تاہم، ہم ماضی میں دیکھتے ہیں کہ صوبوں کی جانب سے وعدے کے مطابق کبھی پوری رقم ادا نہیں کی گئی، مثال کے طور پر گزشتہ مال کی پہلی تین سہ ماہیوں میں صوبوں نے 456 ارب روپے کی رقم فراہم کی، لیکن جب مالی سال اپنے اختتام پر پہنچا تو اس سرپلس میں 154 ارب 50 کروڑ تک کمی آئی، اسی طرح صوبائی کیش سرپلس کے لیے 750 ارب روپے کا ہدف تھا، تقریباً 600 ارب روپے کے بڑے مارجن سے پورا نہ ہوسکا۔
اعداد و شمار سے انکشاف ہوا کہ پنجاب نے رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں 156 ارب روپے سے کچھ زیادہ کی رقم فراہم کی جبکہ ایک سال پہلے یہ رقم 263 ارب روپے تھی، پنجاب حکومت 30 جون 2023 کو مالی سال کے اختتام پر صرف 90 ارب روپے کے سرپلس ہی دے پائی کیونکہ آخری سہ ماہی میں پہلی تین سہ ماہیوں کے مقابلے میں سرپلس میں واضح کمی دیکھنی میں آئی۔
اسی طرح سندھ حکومت رواں سال جولائی تا مارچ میں 77 ارب روپے فراہم کیے جبکہ پچھلے سال اسی عرصے کے دوران سندھ نے 145 ارب روپے میں تقریباً 100 فیصد زیادہ کیش سرپلس دیا جو بالآخر مالی سال کے اختتام پر محض 50 ارب روپے رہ گیا۔
بلوچستان نے گزشتہ مالی سال کے دوران 43 ارب روپے دیے جبکہ رواں سال اس نے 137 ارب روپے سے زیادہ کیش سرپلس کی پیشکش کی ہے، گزشتہ مالی سال کے اختتام پر بلوچستان کا سرپلس 2 ارب 50 کروڑ روپے کے مالیاتی خسارے میں تبدیل ہوگیا۔
دوسری جانب، خیبرپختونخوا حکومت نے رواں سال 64 ارب 50 کروڑ سرپلس کی پیشکش کی، جو گزشتہ سال کی پہلی 3 سہ ماہیوں میں دیے جانے والے 5 ارب 4 کرور روپے سرپلس سے کئی گنا زیادہ ہے، شاید ایسا نگران حکومت کے ذریعے صوبائی حکومت کے صوبے کے کنٹرول کے نتیجے میں ہوا۔
مالی سال 22-2021 میں چاروں صوبوں نے ابتدائی 9 ماہ میں 600 ارب روپے کا کیش سرپلس حاصل کیا تھا، جو اسی مالی سال کے اختتام تک کم ہوکر 351 ارب روپے رہ گیا تھا، اسی طرح مالی سال 21-2020 میں صوبوں نے ابتدائی تین سہہ ماہیوں میں 413 ارب روپے کا سرپلس تھا، جو اگلے تین مہینوں میں کم ہوکر 313 ارب روپے رہ گیا تھا۔