نئے گورنر خیبر پختونخوا کی تعیناتی کے سلسلے میں اعلامیہ غیر معمولی تاخیرکا شکار
نئے گورنر خیبر پختونخوا کی تعیناتی کے لیے اعلامیہ غیر معمولی تاخیرکا شکار ہوگیا۔
’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق فیصل کریم کنڈی کا بطور گورنر خیبر پختونخوا کی نامزدگی کا اعلامیہ تاحال جاری نہ ہوسکا۔
گزشتہ روز پیپلز پارٹی نے فیصل کریم کنڈی کو خیبر پختونخوا کے گورنر کے عہدے کے لیےگورنر نامزد کیاتھا۔
گورنر ہاؤس پشاور میں آج شام 5 بجے حلف برداری کی تقریب منعقد کی جانی تھی جب کہ حلف برداری کی تقریب کے لیے مہمانوں کو مدعو بھی کیا جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ہی پاکستان پیپلزپارٹی نے فیصل کریم کنڈی کو گورنر خیبر پختونخوا اور سلیم حیدر کو گورنر پنجاب کے عہدوں کے لیے نامزد کیا تھا۔
ڈان نیوز سے غیر رسمی گفتگو میں راجا پرویز اشرف نے فیصل کریم کنڈی اور سلیم حیدر کو گورنرز نامزد کیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ فیصل کریم کنڈی اور سلیم حیدر دونوں پارٹی کے ورکرز ہیں۔
گورنرز کی نامزدگی کے حوالے سے خبریں سامنے آنے کے دوران وزیر اعظم شبہاز شریف سے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی ملاقات ہوئی تھی جس میں ملکی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنرز کی تعیناتی پر بھی مشاورت کی گئی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم آفس کے ذرائع نے بتایا کہ یہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ون آن ون ملاقات تھی جس میں دونوں صوبوں کے گورنرز کی نامزدگی کا معاملہ زیر بحث آیا۔
وزیر اعظم نے مبینہ طور پر چیئرمین پیپلز پارٹی کو یقین دہانی کرائی کہ وہ جلد ہی گورنرز کی تقرری سے متعلق سمری صدر مملکت آصف علی زرداری کو بھیجیں گے جو اس کی حتمی منظوری دیں گے۔
اس وقت مسلم لیگ (ن) کے رہنما بلیغ الرحمٰن گورنر پنجاب ہیں جب کہ جے یو آئی (ف) کے نامزد کردہ حاجی غلام علی خیبر پختونخوا میں اسی عہدے پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے دوسری جماعتوں کی حمایت سے مرکز میں حکومت بنانے کے لیے تعاون پر اتفاق کیا تھا۔
اس وقت چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ہم وفاق میں حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے اور (ن) لیگ کے وزارت عظمٰی کے امیدوار کو ووٹ دیں گے۔
بعد ازاں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے عہدے کے لیے شہباز شریف اور اسپیکر کے عہدے کے لیے ایاز صادق کو ووٹ دیا تھا۔
اگرچہ اس وقت تک پیپلز پارٹی براہ راست حکومت کا حصہ نہیں ہے جب کہ اس نے کوئی وفاقی وزارت لینے سے انکار کیا تھا اور حکومت سازی میں تعاون کے معاہدے کے تحت پیپلز پارٹی نے کچھ اہم آئینی عہدے حاصل کرنے کی بات کی تھی۔
ڈیل کے تحت صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پہلے ہی پیپلز پارٹی کو مل چکے ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو 4 میں سے 2 صوبوں کے گورنر بنانے پر بھی رضامندی ظاہر کر دی تھی۔