طیبہ تشدد کیس: سابق جج راجا خرم، ان کی اہلیہ کی سزاؤں کےخلاف نظرثانی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر
سپریم کورٹ نے طیبہ تشدد کیس کے مجرم سابق جج راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کی سزاؤں کے خلاف نظرثانی درخواستیں 6 مئی کو سماعت کے لیے مقرر کر دیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ 6 مئی کو سماعت کرے گا۔
سابق جج راجا خرم اور ماہین ظفر نے سزائیں برقرار رکھنے کے فیصلے پر نظرثانی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
واضح رہے کہ 10 جنوری 2020 کو سپریم کورٹ نے طیبہ تشدد کیس کے مجرم راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کی سزاؤں میں 3 سال تک توسیع کالعدم قرار دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دی گئی ایک سال قید کی سزا بحال کردی تھی۔
اپریل 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے 10 سالہ طیبہ پر تشدد کرنے کے دونوں ملزمان کے خلاف ایک ایک سال قید اور 50، 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
بعدازاں جون 2018 میں ان دونوں مجرمان نے سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جہاں ان کی سزا کو ایک سال سے بڑھا کر 3 سال اور جرمانہ 50 ہزار روپے کے بجائے 5 لاکھ روپے کردیا گیا تھا۔
تاہم 10 جنوری 2020 کو سنائے گئے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے تین سال قید کی سزا کو ختم کرتے ہوئے ایک سال قید کی سزا بحال کردی تھی۔
طیبہ تشدد کیس
یاد رہے کہ 27 دسمبر 2016 کو اسلام آباد کے ایک گھر میں کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے کا واقعہ منظر عام پر آیا تھا۔
بچی کے بیان کے مطابق چائے والی ڈوئی سے مار کر ہاتھ جلایا گیا، پھر پانی کی ٹنکی سے باندھ دیا گیا جبکہ میڈیکل بورڈ کے مطابق بچی کے جسم پر 22 زخم پرانے اور تین زخم نئے تھے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے میڈیکو لیگل آفیسر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ’بچی کی دائیں آنکھ کے گرد سوجن اور نیل موجود تھے، جسم پر سوجن اور جلائے جانے کے نشانات جبکہ چہرے کے دائیں طرف اور بائیں کان کے اوپر بھی چوٹ کے نشان تھے‘ اور بچی کے جسم پر 22 زخم پرانے اور تین زخم نئے تھے۔
بچی نے بتایا تھا کہ اسے گھر میں اکثر اوقات مارپیٹ کا نشانہ بنایا جاتا تھا جبکہ واقعہ منظر عام پر آنے سے کچھ روز قبل مالکن نے اس کا ہاتھ جلتے ہوئے چولہے میں ڈال دیا تھا اور جھاڑو گم ہوجانے پر اسے مارا پیٹا بھی گیا۔
ملازمہ کا کہنا تھا کہ اس کے مالکان اکثر اوقات اسے رات بھر اسٹور روم میں بند کردیتے اور بھوکا رکھنے کے ساتھ مار پیٹ بھی کرتے تھے۔
پولیس نے 29 دسمبر کو جج راجا خرم اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا اور دونوں افراد کے خلاف تھانہ آئی نائن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
3 مارچ 2017 کو طیبہ کے والدین نے راجا خرم اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا تھا۔
بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی جبکہ اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعدازاں پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو حکم دیا تھا کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر اندر معاملے کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔
بعد ازاں 8 جنوری 2017 کو سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے طیبہ کو بازیاب کروا کر عدالت میں پیش کیا تھا، جس کے بعد عدالتی حکم پر 12 جنوری کو جج راجا خرم کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔
اس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیس کا ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا تھا، جہاں متعدد سماعتوں کے بعد 16 مئی 2017 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
بعد ازاں 17 اپریل 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزمان کو ایک، ایک سال قید اور 50، 50 ہزار جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
سزا سنائے جانے کے بعد ملزم راجا خرم علی خان کی جانب سے سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کے لیے ضمانت طلب کی گئی تھی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے انہیں ایک ہفتے کے اندر اپیل دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔
ملزمان نے سزا کے خلاف اپیل کی جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سزا اور جرمانے میں مزید اضافہ کرتے ہوئے 3 سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ عائد کردیا تھا۔