نقطہ نظر

آزادی صحافت کا عالمی دن: ’دنیا غزہ کے صحافیوں کی مقروض ہے‘

غزہ میں موجود صحافیوں کے لیے انسانی مصائب، خون ریزی، ذہنی تھکن، اور یہ خدشہ کہ اگلی ہلاکت کی اطلاع ان کے کسی پیارے کی بھی ہوسکتی ہے، ان کے لیے رپورٹنگ کو انتہائی مشکل بنادیا ہے۔

’تقریباً تین ماہ تک میں غزہ میں موجود تھا، ہر روز جب رات کے اندھیرے گہرے ہوتے تو میں خود کو دیکھ کر کہتا تھا کہ ’تم آج بھی زندہ رہے‘، فلسطینی صحافی یومنہ السید کے یہ الفاظ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ غزہ کے جنگ زدہ علاقے میں رپورٹنگ کرنے والا ہر صحافی کن تجربات سے گزرتا ہے۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق اسرائیل کے غزہ پر وحشیانہ حملوں کے آغاز کے بعد سے تقریباً 200 دنوں میں کم از کم 100 صحافی اپنی جانیں گنواچکے ہیں۔ کمیٹی نے بتایا کہ 20 اپریل تک 16 صحافی زخمی، چار کے لاپتا ہونے اور 25 کو گرفتار کرنے کی تصدیق ہوئی۔ دوسرے الفاظ میں گزشتہ سال 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی اس جنگ کے دوران اگر زیادہ نہیں تو اوسطاً ہر دو دن میں ایک صحافی اپنے فرض کی انجام دہی میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

ان ہولناک اعداد کے تناظر میں میڈیا کارکنان اور صحافیوں کے لیے غزہ دنیا کا خطرناک ترین علاقہ ہے جبکہ سی پی جے سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے آغاز کے بعد سے یعنی 1992ء سے ہونے والی جنگوں میں غزہ جنگ رپورٹرز کے لیے سب سے مہلک جنگ ہے۔

اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بین الاقوامی میڈیا کی نقل و حمل پر پابندی کے باعث مقامی لوگ بشمول صحافی، کانٹینٹ کریئٹرز، فری لانسرز اور انفلوائنسرز مجبور ہوگئے کہ وہ جنگ کے نام پر غاصب فوج کی وحشیانہ کارروائیوں کو دنیا کے سامنے لائیں۔

نو سالہ لاما ابو جاموس اور 17 سالہ عبود جس طرح بہادری سے غزہ کے لوگوں کی آپ بیتی ہمیں سنا رہے ہیں، اس نے ثابت کیا کہ نسل کشی کے خلاف رپورٹنگ کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ یہ اور ان جیسے کئی لوگ کامیابی سے غزہ میں جاری انسانی المیے کے حقائق دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ غزہ سے سامنے آنے والے مناظر نے بہت سے مغربی میڈیا اداروں کی جانب سے اختیار کیے گئے معتصبانہ بیانیے کے خلاف مؤثر ہتھیار کا کام کیا۔

تاہم دیگر جنگی علاقوں کے برعکس غزہ میں رپورٹنگ کرنے والے صحافی کسی بھی طرح کے تحفظ سے محروم ہیں حالانکہ وہ ابلاغ کے ناقص حالات، جنگ کے ذہنی اثرات، بھوک و افلاس کے باوجود پُرخطر علاقوں میں نسل کشی کی کوریج کرتے ہیں اور سب سے زیادہ اہم بات یہ کہ اس رپورٹنگ کے دوران ان کی اپنی زندگیوں اور خاندانوں کو مستقل خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

فلسطینی صحافیوں نے بارہا غزہ میں میڈیا کے کارکنان کی غیرمحفوظ صورتحال کو اجاگر کیا ہے جہاں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں اسرائیلی افواج نے صحافیوں کو ان کے خاندان سمیت جارحانہ حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ ان میں الجزیرہ غزہ کے بیورو چیف وائل الدحدوح کے اہل خانہ بھی شامل ہیں جو اسرائیلی افواج کی جانب سے دو فضائی حملوں میں جاں بحق ہوئے جبکہ وہ خود ان حملوں میں شدید زخمی ہوئے۔ ترکیہ کی انادولو ایجنسی کے فوٹو جرنلسٹ علی جداللہ کے خاندان کے کئی افراد بھی ان کے گھر پر کیے جانے والے اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوئے۔

لیکن شاید غزہ کے صحافیوں کی حالتِ زار کی حقیقی مثال 15 دسمبر کو اس وقت سامنے آئی جب الجزیرہ کے کیمرا مین صمر ابوداقہ، خان یونس میں بمباری کی کوریج کرتے ہوئے اسرائیلی حملے میں اپنی جان سے گئے۔ رپورٹس کے مطابق صمر ابوداقہ پانچ گھنٹوں تک خون میں تڑپتے رہے لیکن غاصب فوج نے ہنگامی طبی امداد دینے سے انکار کردیا جبکہ ایمبولنس اور ریسکیو ورکرز کو بھی وقت پر زخمی صمر تک رسائی نہیں دی۔

جنگ کی رپورٹنگ کرنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔ لیکن غزہ میں موجود صحافیوں کے لیے انسانی مصائب، خونریزی، ذہنی دباؤ، اور یہ خدشہ کہ اگلی ہلاکت کی اطلاع ان کے کسی پیارے کی بھی ہوسکتی ہے، ان کے لیے رپورٹنگ کو انتہائی مشکل بنادیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک ہی وقت میں جنگ کی رپورٹنگ بھی کررہے ہیں جبکہ انسانی امداد کی انتہائی محدود فراہمی کے پیش نظر وہ اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے بھی جدوجہد کررہے ہیں۔

غزہ کے تمام شہریوں کی طرح صحافیوں کو بھی بھوک، پیاس، ذہنی اور جسمانی تکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ اکثر حالات میں تو انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مائیک اور کیمرے ایک جانب کردیں اور زندہ رہنے کی جدوجہد میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کریں۔

کچھ صحافیوں نے تو روزمرہ کی رپورٹنگ پر خوراک اور دیگر ضروریات کی حفاظت اور صفائی کی ضرورت کو ترجیح دے کر اپنی پریس ویسٹ اتار دی۔ کچھ فوٹو جرنلسٹ جیسے معتز عزیزہ، جنگ بندی کے لیے مہم چلانے اور جنگ کے حقائق دنیا کو دکھانے کے لیے غزہ کی پٹی سے باہر نکل گئے۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بچوں کو مرتے ہوئے دیکھا ہے، ہسپتال کے کمپاؤنڈ میں ملنے والی پرانی لاشیں اور فضائی بمباری کے نتیجے میں گھروں کو منہدم ہوتے دیکھا ہے۔ انہوں نے ماؤں کی آہ و زاری سنی ہیں، لوگوں کو اپنے پیاروں کو ملبے تلے نکالنے کے لیے التجا کرتے دیکھا ہے اور ان بچوں کی دل خراش چیخیں سنی ہیں جنہیں بےہوشی کی دوا دیے بغیر ان کے اعضا کو ان کے جسموں سے الگ کیا گیا۔ یہ وہ تجربات نہیں جنہیں کسی بھی شخص کے ذہن سے باآسانی نکالا جاسکے اور وہ جن واقعات کے شاہد بنے ہیں، انہوں نے ان کی ذہنی صحت پر گہرے اور دیرپا اثرات چھوڑے ہیں۔

دنیا ان بہادر مردوں، خواتین اور بچوں کی مقروض ہے جن کے طاقتور بیانیے اور سچائی بیان کرنے کی بےلوث خواہش کا نتیجہ ہم دنیا بھر میں فلسطین کے حق میں مظاہروں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ کبھی بھی ان کا انتخاب نہیں تھا کہ وہ ایسی جنگ کی رپورٹنگ کریں اور نہ ہی یہ وہ زندگی ہے جس کا انہوں نے اپنے لیے تصور کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ایک ایسی جنگ جس کے خاتمے کا بہ ظاہر کوئی امکان نہیں، اس کی کوریج میں ان کا عزم اور حوصلہ کافی متاثر کُن ہے۔

میں نے سوشل میڈیا پر کہیں پڑھا تھا، ’تمام سپر ہیرو کیپ (Cape) نہیں پہنتے بلکہ کچھ پریس کے نام والی ویسٹ بھی پہنتے ہیں‘۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

سعدیہ ریضا
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔