ترجمان حکومت خیبر پختونخوا کی ’تنازعات‘ کے حل کیلئے فوج سے تعاون طلب کرنے کی تصدیق
خیبر پختونخوا کی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے فوج سے تعاون مانگنے کی تصدیق کردی۔
پروگرام ’ڈان نیوز اسپیشل‘ میں بات کرتے ہوئے رہنما تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ یہ فوج اپنی ہے، ان سے رابطے رکھنا غلط نہیں ہے۔
ترجمان خیبر پختونخوا سے سوال کیا گیا کہ خبریں کچھ آئی تھیں کہ صوبائی حکومت ایک طرح سے وفاق کے ساتھ چلنے والے تنازعات، خاص طور پر پیسے کے حوالے سے کور کمانڈر صاحب یا عسکری ادارے سے مدد لے رہی ہے، اس طرح کچھ ہے؟
اس کا جواب دیتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ فوج کسی اور ملک کی فوج ہے اور اس سے رابطہ کرنا گناہ کبیرہ ہے، یہ تاثر غلط ہے اور میرے خیال میں اس تاثر کو ٹھیک ہونا چاہیے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ فوج سے کسی معاملے میں بات کرنا، اس ملک کی بہتری کے لیے بات کرنا، میرے خیال میں وہ غلط نہیں ہے، دوسری بات یہ ہے کہ فوج سے ہماری کیا بات ہوئی، فوج سے ہماری بات چیت یہ ہوئی ہے کہ وہ سیکیورٹی کی ذمے دار ہے۔
ترجمان خیبر پختونخوا حکومت کا کہنا تھا کہ سرحد ہے، ویسٹرن بارڈر ہے، تقریبا گزشتہ 40 سال سے جہاں ایک بحران ہے، 1979 سے جنگ جاری ہے اس علاقے میں، فوج کا اس میں مرکزی کردار ہے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ فوج بھی ہم سے یہ توقع رکھتی ہے کہ ہم بھی اس میں ایک کردار ادا کریں، ہم فوج سے یہ بات کرتے ہیں کہ ہم اداروں کو کیسے مضبوط کریں، جب ہمارے پاس پیسے ہی نہیں ہیں، اخراجات کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، رقم اگر ہمیں نہیں ملے گی تو ہم یقینا ہم اپنے فرائض سے اس طرح عہدہ برا نہیں ہو سکیں گے جیسا ہمیں کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج سے یہ بات ہوئی تھی کہ آپ بھی اپنے فرائض انجام دیں، ہم بھی اپنے کام کریں گے، لیکن وفاق کے ساتھ ہمارے یہ مسئلے ہیں تو اگر فوج اپنے طور پر وفاق سے سیکیورٹی کی مد میں ہماری بات کرسکے تو بہت بہتر ہے۔
پروگرام ’ڈان نیوز اسپیشل‘ میں دیا گیا بیرسٹر سیف کا مکمل انٹرویو اتوار کی رات 11 بجے نشر کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ صوبائی حکومت کے دعوے کے مطابق وفاق کے ذمے 1510 ارب روپے واجب الادا ہیں جب کہ اس سلسلے میں حکومتِ خیبرپختونخوا نے گزشتہ ماہ قایاجات کی وصولی کے لیے ایک ماہ کے اندر پلان آف ایکشن مرتب کرنے کا فیصلہ تھا۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے مالی معاملات کا کیس مؤثر انداز میں پیش کرنے کے لیے دستاویزات تیار رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ شنوائی نہ ہونے کی صورت میں عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جائے گا۔
وزیراعلیٰ کی زیرِصدارت اجلاس میں بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ فارمولے کے تحت پن بجلی کی مد میں وفاق کے ذمے 1510 ارب روپے واجب الادا ہیں، نیشنل گرڈ کو بیچی جانے والی صوبائی بجلی کی مد میں 6 ارب روپے بقایا ہیں۔