پاکستان

مارچ کے مہینے میں آئی ٹی برآمدات سب سے زیادہ رہیں، شہباز شریف

چند روز قبل پاکستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں معاشی اعشاریے بہتر بتائے گئے، وزیر اعظم

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مارچ کے مہینے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) برآمدات سب سے زیادہ رہیں ۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چند روز قبل پاکستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں معاشی اعشاریے بہتر بتائے گئے، ہماری ایکسپورٹس میں بھی اضافہ ہوا، دو مہینے میں ہم نے مل کے جو اجتماعی کاوشیں کی ہیں تو اس سے الحمد اللہ صورتحال آہستہ آہستہ بہتر ہورہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب ٹھیک ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ابھی ہمیں اور محنت کی ضرورت ہے، ہمارا اصلاحات اور ری اسٹرکچرنگ کا جو ایجنڈا ہے، ان کے جڑوں میں جو بیماری ہے اس کا خاتمہ اینٹی بایوٹک سے نہیں ہوگا بلکہ سرجیکل آپریشن سے ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ کل میں نے توانائی کے شعبے کا اسٹرکچرل ریویو چار اقساط میں مکمل کرلیا اور فیصلے کیے ہیں، بجلی چوری میں کمی کے حوالے سے، ٹرانسمیشن سسٹم کو مضبوط کرنے اور بجلی سستی کرنے کے لیے اور ڈسکوز کے حوالے سے بھی ہم نے اصولی فیصلہ کیا ہے، اب اسے خصوصی سرمایہ کاری کونسل اور کابینہ میں لے کر آئیں گے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کل ہی ٹریک اینڈ ٹریس کی رپورٹ آئی تھی، 2019 میں جس کا معاہدہ کیا گیا تھا، اس میں پہلے مرحلے میں تمباکو کی ٹریک اینڈ ٹریس کا معاہدہ تھا اور دیگر شعبے بھی بعد میں شامل ہوئے تو یہ ایک مکمل فراڈ تھا، یہ ایک مذاق تھا، اس میں تمباکو کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں لائی گئی، سیمنٹ فیکٹریوں کو خود ہی ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لگانے کا کہا گیا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس کے ذمہ داران کے احتساب کے لیے کمیٹی بنا دی گئی ہے اور 72 گھنٹے میں رپورٹ مانگی ہے، اربوں کھربوں قوم کی آمدن جہاں آسکتی تھی اس کو مکمل طور پر برباد کردیا گیا، ایف بی آر کے کھربوں کے واجبات عدالتوں میں پھنسے ہیں اور انہی کو کہا گیا کہ وہ اپنے پیسے لگا لیں، ایف بی آر کے اربوں روپے خزانے میں ضرور آئیں گے، یہ نا آئے تو ہمارا حکومت کرنے کا حق نہیں۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ جو ٹیکس نہیں دیتے ان کو انہوں نے اور چھوٹ دی، معاہدے میں اس حوالے سے کوئی پینلٹی تک نہیں، یہ 2019 میں ایک ایسی حکومت کے دور میں ہوا جس نے پورے پاکستان میں سب کو لیبل لگادیا تھا اور خود کو دودھ کے نہائے دھلے سمجھتے تھے، یہ اس حکومت کا ریکارڈ ہے جو ناجانے کہاں سے صاف اور کہاں سے شفاف چلی تھی؟ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ تمباکو آرگنائزڈ سیکٹر ہے۔