پاکستان

کراچی: پولیس حراست میں ملزم کی ہلاکت: ایس ایچ او سمیت 3 اہلکاروں کا جسمانی ریمانڈ منظور

گرفتار ملزمان ایس ایچ او درخشاں علی رضا لغاری، ہیڈ محرر فیصل لغاری اور مقتول معيز کو گرفتار کرنے والے سب انسپکٹر ثنا اللہ کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

کراچی پولیس کی حراست ملزم کی ہلاکت کے کیس میں گرفتار ملزمان ایس ایچ او درخشاں علی رضا لغاری، ہیڈ محرر فیصل لغاری سمیت 3 اہلکاروں کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا گیا۔

پولیس حراست میں ملزم کی ہلاکت کے کیس کی جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں سماعت ہوئی، گرفتار ملزمان ایس ایچ او درخشاں علی رضا لغاری، ہیڈ محرر فیصل لغاری اور مقتول معيز کو گرفتار کرنے والے سب انسپکٹر ثنا اللہ کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

دوران سماعت تھانے کی سی سی ٹی وی فوٹیج عدالت میں جمع کروائی گئی، تفتیشی افسر نے بتایا کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) کلفٹن نیّر کو گرفتار کرنا ہے، تھانے کے اندر کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود نہیں ہے۔

عدالت نے تفتیشی افسر کی ریمانڈ دینے کی درخواست منظور کرتے ہوئے تینوں ملزمان کو مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا اور آئندہ سماعت پر تفتیشی افسر سے پیشرفت رپورٹ طلب کرلی۔

یاد رہے کہ بھتہ خوری کے ایک مقدمے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار
معیز کی گزشتہ ہفتے میں پولیس کی حراست میں موت ہو گئی تھی۔

پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم کو سی ویو کے رہائشی عبدالباسط سے بھتے کی رقم کا مطالبہ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا، پولیس نے بتایا کہ اسے درخشاں تھانے لا کر قید کردیا گیا تھا تاہم، وہ پیر کو مردہ حالت میں پایا گیا۔

پولیس نے دعویٰ کیا کہ بظاہر مشتبہ شخص کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔

تاہم لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر منتقل کر دیا گیا تھا تاکہ اس کی موت کی اصل وجہ معلوم کی جا سکے۔

پولیس ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ڈی آئی جی جنوب سید اسد رضا نے درخشاں تھانے کے لاک اپ میں ملزم کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دے دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ صدر ایس پی کو انکوائری افسر مقرر کیا گیا اور انہیں 24 گھنٹے میں تحقیقاتی نتائج پیش کرنے کو کہا گیا، ڈی آئی جی نے ایس ایچ او درخشاں علی رضا لغاری کو بھی معطل کردیا تھا۔

بعد ازاں ملزم کی ہلاکت تشدد کے باعث ہونے کا انکشاف ہوا تھا، جناح ہسپتال کی جانب سے بنائی گئی ابتدائی میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ متوفی کے جسم پر 13 جگہوں پر بدترین تشدد کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ میڈیکو لیگل افسر نے پہلے صفحہ پر ہی موت کو غیر طبعی قرار دے دیا، معیز نسیم کو مردہ حالت میں ہی جناح ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

اس کے مطابق اسٹیشن ہاؤس افسر تھانہ درخشاں نے لاش بھیجی جبکہ سب انسپکٹر سلیم بروہی لاش لے کر آئے، معیز نسیم کے کپڑے خون سے بھرے ہوئے تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ معیز کے کمر کے نچلے دونوں حصوں پر بھی تشدد کے نشانات موجود ہیں۔

کاش تقسیم نہ ہوتی: بھارتی مداحوں کا درفشاں سلیم کی تصاویر پر رد عمل

فائٹ سے پہلے بھارتی حریف نے بدتمیزی، گالم گلوچ کی تھی، شاہ زیب رند

’دنیا کی کوئی طاقت پاک-ایران تعلقات خراب نہیں کر سکتی‘، ایرانی صدر کی بلاول بھٹو سے ملاقات