یہ فوجداری مقدمہ ہے، شک کا معمولی سا فائدہ بھی ملزمان کو ہی جائے گا، عدالت
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ یہ فوجداری مقدمہ ہے، شک کا معمولی سا فائدہ بھی ملزمان کو ہی جائے گا۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپیلوں پر سماعت کی ، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے وکیل سلمان صفدر و دیگر جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) پراسیکیوشن ٹیم میں حامد علی شاہ، ذوالفقار نقوی، نعیم اقبال و دیگر عدالت میں پیش ہوئے، عدالتی حکم پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
کمرہ عدالت میں ملزمان کے خاندانی افراد سمیت پارٹی قیادت اور وکلا کی بڑی تعداد موجود تھی، سائفر کیس میں تعینات اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے اپنے دلائل کا آغاز کردیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ٹرائل کورٹ میں کیس سے متعلق تین بیک گراؤنڈ دیے ہیں، حامد علی شاہ نے کہا کہ آج میں دوسرے فرد جرم سے اپنے دلائل کا آغاز کروں گا، ویسے تو بہت کچھ سلمان صفدر نے بتایا ہے۔
سائفر اصل میں ہے کیا چیز ؟ چیف جسٹس عامر فاروق
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر میں کہہ دوں کہ میں سب کچھ بھول چکا ہوں تب کیا ہوگا؟ باقی چیزیں اپنی جگہ یہ بتائیں سائفر اصل میں ہے کیا چیز ؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ 8 مارچ 2022 کو سائفر بذریعہ ای میل وزارت خارجہ کو موصول ہوا، 7 مارچ 2022 کو سائفر واشنگٹن سے بنایا گیا تھا، سائفر ٹیلی گرام ایک سیکریٹ دستاویز ہے جسے بعد میں ڈی کوڈ کیا گیا۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ صرف یہ سائفر خفیہ دستاویز تھا یا وہ تمام سائفر سیکریٹ ہوتے ہیں؟ حامد علی شاہ نے کہا کہ تمام سائفر سیکریٹ ہوتے ہیں اور پھر اس کی گریڈنگ ہوتیں ہے۔
اسی کے ساتھ کلاسیفائیدز ڈاکیومنٹس کی بک لیٹ کی کاپی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی۔
عدالت نے دریافت کیا کہ کیا آپ کہتے ہیں کہ یہ کاپی ہر وزارت میں موجود ہوتی ہے؟ حامد علی شاہ نے کہا کہ ویسے تو یہ وفاقی کابینہ کی جاری کردہ ہے مگر کسی بھی وزارت کو آن ڈیمانڈ دیا جاتا ہے.
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں سائفر کا پتہ ہے مگر ایگزیکٹ نہیں پتہ، سلمان صفدر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا جو کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے اسے دور سے دیکھ رہا ہوں، حامد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سر ان کی کاپی ان کے پاس موجود تھی اور جرح کے دوران انہوں نے استعمال بھی کیا۔
حامد علی شاہ نے مزید کہا کہ اگر یہ کاپی کسی کے پاس آ جائے تو وہ کوڈ بریک ہو جائے گا،اس کتابچے کے چیپٹر 8 میں سائفر سیکیورٹی کے حوالے سے بتایا گیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں عام طور پر تو معلوم ہے سائفر کیا ہوتا ہے مگر ہمیں آپ آگاہ کریں، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ بہت سے ممالک میں خفیہ معلومات کے لیے ایک سیل بنایا جاتا ہے ، جب کوڈڈ فارم میں ٹیکسٹ بھیجا جاتا ہے تو اسے ان کوڈز سے ڈی کوڈ کیا جاتا ہے ، سادی کاپی کو لفظ بہ لفظ ڈی کوڈ کیا جائے تو اسے ڈی کوڈ کرنے میں آسانی ہوتی ہے ، ہو باہو ترجمے میں معنی برقرار رہتے ہیں مگر ان کو بکھیر کر الفاظ تبدیل کردیے جاتے ہیں۔
کوڈڈ سائفر کو وزرات خارجہ کے صرف متعلقہ بندے ہی ڈی کوڈ کرسکتے ہیں؟ عدالت
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیبنے استفسار کیا کہ کوڈڈ سائفر کو وزرات خارجہ کے صرف متعلقہ بندے ہی ڈی کوڈ کرسکتے ہیں؟ کیا ڈی کوڈ ہونے کے بعد والی جو کاپی ہے وہ غائب ہے؟
حامد علی شاہ نے بتایا کہ ہر ملک کے ہر وزارتِ خارجہ کے اپنے کوڈز ہوتے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تو اس کا مطلب ہے آج بھی سافٹ کاپی سسٹم میں پڑی ہوگی؟حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ جی آج بھی وہی سافٹ اصلی کاپی سسٹم میں پڑی ہوگی، سائفر ٹیلی گرام کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ بُک لیٹ بھی خفیہ دستاویز ہے؟ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اس پر لکھا ہوا ہے کہ یہ بُک صرف آفیشل استعمال کے لیے ہے، کلاسیفائیڈ ہے، یہ کتاب ڈپٹی اٹارنی جنرل کے نام پر ایشو ہوئی ہے تاکہ عدالت کے فیصلہ لکھنے تک یہاں موجود رہے، یہ بُک جس شخص کے نام ایشو ہوتی ہے اس نے ہر 6 ماہ بعد بتانا ہوتا ہے کہ اس کے پاس ہی ہے، سائفر جیسے آتا ہے تو بعد میں دونوں طرف سے تباہ کردیا جاتا ہے ،
اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ سائفر کی پرنسپل کاپی آج بھی وزرات خارجہ میں موجود ہے؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ آج بھی سافٹ کاپی وزرات خارجہ میں موجود ہوگی، سائفر ایک سیکریٹ ڈاکومنٹ ہوتا ہے، اس کی کاپی نہیں کی جاسکتی, سائفر کی کاپی اگر کرنی ہو تو اس کی اجازت لی جاتی ہے.
عدالت نے دریافت کیا کہ جو بک لیٹ آپ پڑھ رہے ہیں یہ ٹرائل کورٹ کے سامنے گئی تھی؟ حامد علی شاہ نے بتایا کہ یہ بک لیٹ ٹرائل کورٹ میں بطور ثبوت پیش نہیں کیا گیا،
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ یہ دستاویز یعنی بک لیٹ خود بھی اکاونٹبل دستاویز ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اس بک لیٹ میں لکھا ہے ہم نے بھی وہی کرنا ہے؟ کیا ہم فیصلے میں لکھیں؟ یہ بک لیٹ تو بہت پرانا ہوگا پتا نہیں اس دور میں کیا ضرورت تھی؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس بک لیٹ میں صرف سائفر کی بات نہیں بلکہ بہت سارے دستاویزات کا کہا گیا ہے، چیف جسٹس جکا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں یہاں بہت سارے کیسسز میں آفیشل دستاویزات آتے جاتے ہیں۔
بعد ازاں چیف جسٹس عامر فاروق نےا سپریم کورٹ کے جسٹس رمدے ججمنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میرا ٹیکس ریٹرن کوئی پبلک ڈاکیومنٹ نہیں ہے، اگر آپ اس کی کاپی ساتھ لے کر گھمائیں تو وہ پبلک ڈاکیومنٹ تو نہیں ہے ناں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس ڈاکیومنٹ کو ہم ہمارے فیصلے کے لیے ریفر نہیں کرسکتے، جج نے کہا کہ ملزمان نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔
باہر سے جب سائفر آتا ہے تو اسے کلاسیفائیڈ کون کرتا ہے؟ جسٹس عامر فاروق
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ جو بک لیٹ سے متعلق وفاقی کابینہ کی ہدایات ہیں، ان کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ آپ نے بتانا ہے کہ کہاں کہاں پر قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے؟ باہر سے جب سائفر آتا ہے تو اسے کلاسیفائیڈ کون کرتا ہے؟
حامد علی شاہ نے بتایا کہ سائفر وزرات خارجہ کا متعلقہ سیکشن کلاسیفائیڈ کرتا ہے، جو موضوع آپ کے سامنے پیش کروں گا اس کے متعلق گواہوں پر دلائل بھی ساتھ دوں گا ،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یعنی ابھی آپ کا الزام صرف اتنا ہے کہ انہوں نے سائفر کاپی واپس نہیں کی؟
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ پرایکیوشن کی جانب سے ٹرائل کورٹ میں سزائے موت کی استدعا کی گئی ، سزا کی استدعا کی گئی مگر اس کے مواد عدالت میں پیش نہیں کیے گئے، اس ٹرائل کے پروسیجرل طریقہ کار کی پیروی نہیں کی گئی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آج جو دستاویزات ہمیں دیے گئے اگر ہمارے اسٹاف سے گم ہوجاتا ہے تو ہمارے خلاف ایف آئی آر ہو جائے گی ؟ آج یہ کتابچہ ہم سے واپس لے لیجیے گا آئندہ سماعت پر دوبارہ لے آئیے گا۔
عدالت نے مزید کہا کہ یہ تو بہت ہی کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس ہیں، کیا اعظم خان نے عمران خان کو بتایا تھا؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے تو اس کتابچے کو رٹہ نہیں تو ان کو کیا پتا؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب کاپیاں فراہم کی گئیں تو ان کی واپسی سے متعلق کوئی ہدایات لکھے تھے؟ اوپر لکھنے والا معاملہ نہیں، آپ نے ہمیں بتانا ہے ہمیں نہیں پتا کہ اسٹامپ کہاں لگا ہے؟
عدالت نے استفسار کہ کیا اعظم نے ان دونوں کو یہ بات بتایا تھا کہ اس ڈاکومنٹ کی حساسیت کیا ہے ؟ ان دونوں نے اس کو رٹا ہوا تو نہیں ہے ، بعض اوقات آپ کو نہیں پتہ ہوتا آپ نے ان کو کیسے ڈیل کرنا ہوتا ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہر کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ کے اوپر لکھا ہوتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اوپر والا تو ہمارے پاس ہے نہیں ، کیونکہ ڈاکومنٹ تو ریکارڈ پر ہے ہی نہیں ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ فوجداری کیس ہے شک کا تمام فائدہ اُن کو جائے گا، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریماکرس دیے کہ بالکل کرمنل کیس ہے، شک کا معمولی سا فائدہ بھی ملزمان کو ہی جائے گا۔
بعد ازاں عدالت نے سائفر اپیلوں کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ 17 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی تھی، سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا تھا کہ وزارت خارجہ کی جگہ داخلہ نے کیوں شکایت درج کرائی؟
واضح رہے کہ اس سے گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل بانی پی ٹی آئی سے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اعظم خان جو اسٹار گواہ ہیں، ان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟
واضح رہے کہ 4 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جو سیکشن لگائے گئے اور سزا سنائی گئی اس سے تو شاہ محمود قریشی کا تعلق ہی کوئی نہیں۔
اس سے قبل 2 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماع ملتوی ہوگئی تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ جب کوڈڈ پیغام کو ڈی کوڈ کر کے کاپی بنائی جائے تو وہ بھی سائفر ہی رہے گا؟
واضح رہے کہ اس سے قبل ہونے والی سماعت میں بھی سلمان صفدر نے بتایا تھا کہ سائفر کی کہانی عدم اعتماد کے بعد شروع ہوئی تھی۔
28 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 2 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا سائفر کو ڈی کوڈ نہیں کیا گیا؟
20 مارچ کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کی خلاف اپیلوں پرچیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟
19 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل جواب طلب کرلیا تھا۔
13 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت اور سزا معطلی کی اپیلوں پر میرٹ پر دلائل سننے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
11 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی کے وکلا سے دلائل طلب کرلیے ۔
26 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں بانی تحریک انصاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کو نوٹس جاری کر دیا۔
16 فروری کو پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے سائفر، توشہ خانہ اور نکاح کیسز میں سنائی گئی سزاؤں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا۔
اس سے قبل سماعت میں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے سزا کے خلاف اپیلوں پر دلائل کا آغاز کردیا جبکہ عدالت نے فریقین کو 11 مارچ مکمل تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کردی تھی۔
واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔
سائفر کیس
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔