’طالبان سے منسلک‘ امام مسجد کوئٹہ میں قتل، افغانستان میں سپردخاک
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے نواں کلی میں نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے امام مسجد کو قتل کر دیا تھا جن کی تدفین افغانستان میں ان کے آبائی صوبے زابل میں کر دی گئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک حکام نے بتایا کہ امام مسجد محمد عمر جان اخوندزادہ کی میت ان کے اہل خانہ نے افغانستان منتقل کی۔
حکام نے انکشاف کیا کہ محمد عمر جان اخوندزادہ طالبان رہنما تھے لیکن وہ گزشتہ 13 سال سے کوئٹہ کے مضافات نواں کلی میں رہائش پذیر تھے۔
وہ اپنے والد کی جگہ اسی مسجد میں پیش امام بنے تھے، ان کی عمر 55 برس تھی جبکہ ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ اور علاقے میں ایک گھر تھا۔
افغان طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر رپورٹ کیا کہ محمد عمر جان اخوندزادہ سینئر مذہبی اسکالر تھے اور انہوں نے قندھار میں طالبان کے زیر انتظام مدرسے میں تدریس کے فرائض انجام دیے تھے، وہ افغان طالبان کی نگران کمیٹی کے رکن بھی تھے۔
کوئٹہ پولیس نے قتل کے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں، ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ ہم مولوی محمد عمر جان کے قتل کی تحقیقات کررہے ہیں لیکن ہمیں افغان طالبان حکومت میں ان کی حیثیت کے حوالے سے کوئی آگہی نہیں ہے، مزید کہا کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد تفصیلات سے آگاہ کیا جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ عمر جان اخوندزادہ افغان طالبان سے اختلافات کے بعد 13 برس قبل کوئٹہ منتقل ہو گئے تھے، وہ اپنے والد کے ہمراہ نواں کلی میں رہائش پذیر تھے، تاہم ان کے اہل خانہ نے طالبان حکومت کے ساتھ منسلک ہونے کی تردید کی ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ عمر جان اخوندزادہ طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے بہت قریب تھے، وہ بھی افغان طالبان کی سربراہی سے قبل کچلاک کی مسجد کے امام تھے۔
کوئٹہ میں پولیس حکام نے بتایا کہ کسی بھی فرد یا گروپ نے فوری طور پر عمر جان اخوندزادہ کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔