پاکستان

قانونی طور پر پاکستان میں رہنے والے افغانوں کو ہراساں نہیں کیا جانا چاہیے، بیرسٹر سیف

قانونی طور پر رہنے والے افغانوں کے خلاف کوئی بھی کارروائی پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمی اور بداعتمادی کو ہوا دے گی، ترجمان صوبائی حکومت

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ پاکستان میں قانونی طور پر رہنے والے افغان شہریوں کو ہراساں یا بے دخل نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ اس طرح کا کوئی بھی اقدام پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو خراب کر سکتا ہے۔

حکومت نے پچھلے سال نومبر میں دستاویزات کے بغیر اور غیرقانونی طور پر رہنے والے افغان باشندوں کی وطن واپسی کے عمل کا آغاز کیا تھا،

تاہم اس عمل کو 5 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اس حوالے سے کوئی سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے ہیں کہ پاکستان میں دستاویزات کے بغیر رہنے والے 17 لاکھ باشندوں میں سے کتنے افراد نومبر 2023 سے اب تک اپنے وطن واپس لوٹ چکے ہیں۔

لیکن باخبر ذرائع کے مطابق پہلے دور میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے راستے افغانستان واپس جانے والے غیر دستاویزی افغانوں کی کل تعداد تقریباً 5 لاکھ ہے۔

دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ اس سلسلے میں دوسرے مرحلے پر کام جاری ہے جس میں قانونی دستاویز کے ساتھ پاکستان میں رہنے والے تقریباً 10 لاکھ افغان باشندوں کو وطن واپس بھیجنے کی تیاری کی جا رہی ہے اور اس مہم کے سلسلے میں ضلعی حکام اور پولیس کو ملک بھر میں ان افراد کے ٹھکانے معلوم اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کی ہدایات کی گئی ہے۔

خیبرپختونخوا کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری عابد مجید نے مارچ میں ڈان کو تصدیق کی تھی کہ ہم نے نقشہ سازی کا عمل پہلے ہی شروع کر دیا ہے جہاں اس کام پایہ تکمیل پہنچانے کی ڈیڈ لائن 30 اپریل ہے۔

گزشتہ دنوں ڈان نیوز کے پروگرام دوسرا رخ میں گفتگو کرتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں تمام غیر قانونی افغان تارکین وطن کو پہلے ہی واپس بھیج دیا گیا ہے اور قانونی طور پر ملک میں رہنے والے افغان باشندوں کے خلاف فی الحال کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پہلے مرحلے کے دوران ہمیں خیبر پختونخوا میں غیر قانونی افغان باشندوں کی نشاندہی کا کام سونپا گیا تھا اور انہیں ملک بدر کر دیا گیا اور بغیر دستاویزات کے صوبے میں رہنے والے تمام افغان واپس افغانستان چلے گئے ہیں۔

بیرسٹر سیف نے مزید کہا کہ صوبے میں صرف وہ افغان باقی رہ گئے ہیں جن کے پاس پاکستانی قانون اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین جیسے اداروں کی بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق افغان سٹیزن کارڈز موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے ہمیں صرف یہ معلوم کرنے کا کام سونپا ہے کہ کے پی میں قانونی طور پر کتنے افغان باشندے رہتے ہیں اور ہمارے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبے میں 3لاکھ 59ہزار افغان رہتے ہیں لیکن ابھی تک کسی کے خلاف کارروائی کا کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں قانون طور پر رہنے والے ان افغان بانشدوں کو نکالنے کی ہدایت کی جاتی ہے تو ہم حکام سے بات کریں گے، غیر قانونی طور پر رہنے والے افغانوں کو ملک بدر کرنا جائز تھا لیکن ہم یہاں قانونی طور پر مقیم افغانوں کو ہراساں یا نشانہ نہیں بنا سکتے۔

بیرسٹر سیف نے خبردار کیا کہ اگر قانونی طور پر رہنے والے افغان باشندوں کے خلاف کوئی بھی کارروائی کی گئی تو یہ عمل پاکستان اور افغانستان کے درمیان نفرت، غلط فہمی اور بداعتمادی کو ہوا دے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کو اس صورتحال سے بہت محتاط طریقے سے نمٹنا چاہیے۔