دنیا

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کل سرکاری دورے پر پاکستان پہنچیں گے

8 فروری کے عام انتخابات کے بعد کسی بھی سربراہ مملکت کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہوگا، ترجمان دفتر خارجہ

دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی 22 اپریل (پیر) سے 24 اپریل (بدھ) تک پاکستان کا سرکاری دورہ کریں گے۔

ایک بیان میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ 8 فروری کے عام انتخابات کے بعد کسی بھی سربراہ مملکت کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ’ایرانی صدر کے ساتھ ان کی شریک حیات اور وزیر خارجہ اور کابینہ کے دیگر ارکان، اعلیٰ حکام کے ساتھ ساتھ ایک بڑا تجارتی وفد بھی ہمراہ ہوگا۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ابراہیم رئیسی، وزیر اعظم شہباز شریف، صدر آصف علی زرداری، سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی اور قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق سے ملاقاتیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ لاہور اور کراچی بھی جائیں گے اور صوبائی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ’دونوں فریقین کے پاس پاکستان ۔ ایران تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور تجارت، رابطے، توانائی، زراعت، اور عوام سے عوام کے رابطوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو بڑھانے کا وسیع ایجنڈا ہوگا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’دونوں ممالک کی قیادتیں علاقائی اور عالمی پیش رفت اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے دو طرفہ تعاون پر بھی بات کریں گے۔‘

ترجمان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اور ایران کے درمیان مضبوط تاریخی، ثقافتی اور مذہبی دوطرفہ تعلقات ہیں، یہ دورہ پاکستان ۔ ایران تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔‘

ایرانی سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ یہ دورہ ایران کی جانب سے بلوچستان کے سرحدی شہر پنجگور میں عسکریت پسند گروپ جیش العدل کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے پاکستان میں حملوں کے آغاز کے چند ماہ بعد ہو رہا ہے، ان حملوں کے بعد اسلام آباد نے شدید الفاظ میں مذمت کی تھی اور سفارتی تعلقات میں تنزلی کا اشارہ دیا تھا۔

48 گھنٹے سے بھی کم وقت بعد، پاکستان نے حملوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا تھا۔ ایران نے زور دیا تھا کہ وہ اپنے دشمنوں کو اسلام آباد کے ساتھ اپنے ’خوشگوار اور برادرانہ تعلقات‘ کو کشیدہ کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

13 اپریل کو، صدر آصف زرداری نے ایرانی ہم منصب کے ساتھ فون کال میں دونوں ممالک کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز پر قابو پانے کے لیے معلومات کے تبادلے کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔