کراچی: تاجر کے گھر ڈکیتی میں ملوث پولیس اہلکاروں کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
کراچی کی مقامی عدالت نے اورنگی ٹاؤن کے علاقے بلدیہ میں تاجر کے گھر ڈکیتی کرنے والے مفرور پولیس اہلکاروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے، عدالت نے تمام ملزمان کو 27 اپریل تک گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم بھی دے دیا۔
’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق جوڈیشل مجسٹریٹ کراچی غربی کی عدالت نے ایک مرتبہ پھر مقدمہ سی کلاس کرنے کی درخواست مسترد کردی۔
عدالت نے تفتیشی افسر سے ضمنی چالان طلب کرلیا، عدالت نے مفرور ملزمان سمیت تمام ملزمان کو 27 اپریل تک عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔
گزشتہ سماعت پر عدالت نے اورنگی ٹاؤن میں تاجر کے گھر پر چھاپے کے دوران مبینہ ڈکیتی کے مقدمے میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس(ڈی ایس پی) کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
معاملے سے متعلق درج ایف آئی آر میں ڈی ایس پی اور 2 گن مین کانسٹیبل خرم علی اور فرحان علی سمیت کئی دیگر نامعلوم پولیس اہلکاروں اور نجی افراد کو نامزد کیا گیا تھا، جنہوں نے مبینہ طور پر شکایت کنندگان کے گھر پر 18 اور 19 نومبر کی درمیانی شب چھاپہ مارا اور اہل خانہ کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنایا۔
درخواست گزار نے کہا تھا کہ ملزمان اس کے گھر سے تقریباً 2 کروڑ روپے اور دیگر قیمتی سامان لے گئے۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ ملزمان کارروائی کے بعد شکایت کنندہ شاکر خان اور بھائی عامر خان کو بھی ساتھ لے گئے اور بعد میں انہیں بلوچ کالونی پل کے قریب چھوڑ دیا۔
پیرآباد تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 365، 395، 342 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
آئی جی سندھ رفعت مختار راجا کے حکم پر ڈی آئی جی غربی کیپٹن ریٹائرڈ عاصم خان کی جانب سے کی گئی انکوائری میں کہا گیا کہ اورنگی ٹاؤن میں تاجر شاکر خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ بدنیتی پر مبنی تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ حقائق جان بوجھ کر چھپانے کے ساتھ ساتھ اس طرح کے کام کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ڈی ایس پی اپنے عملے اور نجی مخبروں کے ساتھ اس غیر قانونی اور مجرمانہ فعل کے لیے براہ راست ذمہ دار ہیں۔
انکوائری افسر نے سینئر افسران کو بھی غفلت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا کہ سینئر افسران بھی ڈی ایس پی کی غیر قانونی سرگرمیوں پر کڑی نظر نہ رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ان تمام حقائق، شواہد اور بیانات’ کی روشنی میں ڈی آئی جی کو سفارش کی جاتی ہے عمیر طارق کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نجی افراد کے ہمراہ اس طرح کے گھناؤنے جرم میں براہ راست ملوث ہونے پر سخت محکمہ جاتی اور قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
رپورٹ میں شکایت کنندہ شاکر خان کے گھر ڈکیتی میں حصہ لینے والے نجی افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ انکوائری رپورٹ میں ایس ایس پی جنوبی کے خلاف بھی کارروائی کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ ڈسٹرکٹ جنوبی کے پیشہ ورانہ تربیت یافتہ پولیس افسران کو چھاپہ مارنے کی ڈیوٹی نہ سونپنے پر ایس ایس پی جنوبی کے خلاف بھی مناسب کارروائی کی جائے۔
بعد ازاں 2 پولیس افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا، جاری نوٹیفکیشن کے مطابق ایس ایس پی جنوبی عمران قریشی اور ان کے زیر تربیت ڈی ایس پی عمیر طارق بجاری کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ایس ایس پی عمران قریشی کا تبادلہ کر دیا گیا اور انہیں سینٹرل پولیس آفس رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی، تاہم نوٹیفکیشن میں دونوں افسران کو عہدے سے ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تھی۔
اس تمام واقعے سے باخبر دو افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا تھا کہ ڈی ایس پی عمیر طارق بجاری کی سربراہی میں ساؤتھ پولیس کی ایک ٹیم نے حال ہی میں اورنگی ٹاؤن میں ایک تاجر کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔
پولیس ٹیم چھاپے کے دوران بھاری مقدار میں نقدی اور زیورات کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈر بھی ساتھ لے گئی تھی تاکہ سی سی ٹی وی فوٹیج کو غائب کیا جا سکے، تاہم گلی میں نصب دیگر سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کی مدد سے انہیں بے نقاب کرنے میں مدد ملی۔
اس واقعے پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا جس کے بعد آئی جی سندھ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے انکوائری ٹیم تشکیل دی تھی جس کی قیادت ڈی آئی جی غربی عاصم خان کر رہے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ ڈی آئی جی غربی نے آئی جی کو تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی اور اسی تحقیقات کے نتائج کی روشنی میں ایس ایس پی اور ڈی ایس پی دونوں کو ہٹا دیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس وردی میں ملبوس افراد سمیت ایک درجن سے زائد افراد نے اورنگی ٹاؤن میں ایک گھر پر چھاپہ مارا اور اہل خانہ کو اسلحے کے زور پر یرغمال بنا کر 2 کروڑ روپے، 70 سے 80 تولے سونا اور دیگر قیمتی سامان چوری کر لیا تھا۔
سوشل میڈیا پر معاملہ گرم ہونے اور آئی جی کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دینے کے بعد متعدد پولیس اہلکاروں نے لوٹی گئی نقدی اور زیورات کا کچھ حصہ متاثرین کو واپس کر دیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق ملزمان نے مبینہ طور پر سی سی ٹی وی فوٹیج میں شناخت کیے گئے افراد کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرنے کے لیے متاثرہ اہل خانہ پر دباؤ بھی ڈالا تھا۔