کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پالیسی ریٹ 50 بیسس پوائنٹس بڑھا کر 9.5 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو 16 ستمبر 2013ء سے مؤثر ہوگا۔
یہ اعلان اسٹیٹ بینک کے گورنر یاسین انور نے جمعہ کو ایس بی پی لرننگ ریسورس سینٹر کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں اگلے دو ماہ کے لئے ’’زری پالیسی بیان‘‘ جاری کرتے ہوئے کیا۔
پالیسی ریٹ میں اضافے کا فیصلہ آج ان کی صدارت میں اسٹیٹ بینک کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ایک اجلاس میں کیا گیا۔
یاسین انور نے کہا کہ پاکستان میں سست طویل مدت معاشی نمو کے ذمہ دار بنیادی مسائل جیسے کمزور معاشی نظم و نسق اور پست پیداواریت بڑی حد تک جوں کے توں ہیں۔ انہوں نے کہا ’’معیشت میں نمو اور مستحکم گرانی کے مختصر ادوار آتے رہے ہیں لیکن کارکردگی میں پائیداری نہیں آسکی‘‘۔
انہوں نے کہا کہ مالیاتی قرض گیری میں بے پناہ اضافہ اور ملکی و بیرونی سرمایہ کاریوں دونوں میں طویل مدت کمی ساختی مسائل کی صرف علامتیں ہیں۔
’’گرانی کو پست اور مستحکم رکھنے اور نجی سرمایہ کاری رجحان میں مدد دینے دونوں کے حوالے سے زری پالیسی کا کردار اس ماحول میں محدود ہی ہو سکتا ہے، تاہم پچھلے دو برسوں کے دوران گرانی میں خاصی کمی کے پیش نظر اسٹیٹ بینک نے اپنا پالیسی ریٹ 500 بیسس پوائنٹس کم کیا‘‘۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے مالی منڈیوں میں بھی مداخلت کرتے ہوئے بچت امانتوں پر منافع کی شرح کم از کم 6 فیصد مقرر کی اور بازار مبادلہ میں تغیر کو قابو کیا۔
اسٹیٹ بینک نے اپنی سیالیت سے متعلق کارروائیاں بھی اس نپے تلے انداز میں کیں کہ مالی استحکام اور وسط مدت گرانی کے خطرات کے درمیان توازن رہا۔
انہوں نے کہا کہ ان اقدامات کے نتیجے میں ’’بہ وزن اوسط شرح قرض گاری آخر جولائی 2013ء تک 423 بیسس پوائنٹس کم ہوگئی جبکہ بینکاری نظام کی امانتوں میں 15.9 فیصد اضافہ ہوا اور شرح مبادلہ کی کمی مالی سال 13ء میں 5.1 فیصد تک محدود ہوگئی‘‘۔
انہوں نے کہا کہ زوال پذیر شرح سود کے ماحول سے مالی سال 13ء میں نجی کاروبار کے بعض شعبوں کو دیے جانے والے قرضوں میں معمولی تیزی آئی تاہم ’’بیشتر قرضے صرف جاری سرمائے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیے گئے‘‘۔
انہوں نے کہا ’’حقیقی نجی سرمایہ کاری اخراجات مسلسل پانچویں سال کم ہوئے اور مالی سال 13ء میں جی ڈی پی کے 8.7 فیصد تک پہنچ گئے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف بلند شرح سود نجی شعبے کی جانب سے قرضے کے استعمال کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نہ تھی ’’قرضے کی طلب میں کوئی خاص اضافہ نہ ہونے کے ذمہ دار دو بنیادی عوامل ہیں: توانائی کی مسلسل قلت اور امن و امان کے حالات کا بگاڑ‘‘۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مالی سال 13ء کے دوران بینکاری نظام سے میزانیہ قرض گیری میں 1446 ارب روپے اضافہ اصل ہدف سے تقریباً دس کھرب روپے زیادہ تھا بلکہ زر 2 کی مجموعی توسیع سے بھی زیادہ تھا۔
’’اس پیمانے پر انحراف کی وجہ سے زری انتظام کی اثر انگیزی بہت محدود ہوگئی ہے، معیشت میں مالی وساطت کا عمل متاثر ہوا ہے اور ملکی قرضے میں تیزی سے اضافہ ہوگیا ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس جی ڈی پی تناسب کو بڑھانے میں ناکامی بھاری مالیاتی خساروں، بلند قرض گیری اور بڑھتے ہوئے قرضے کی بنیادی وجہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا ’’شعبہ توانائی کے گردشی قرضے کے واجب الادا اسٹاک کے تیزی سے تصفیے، بجلی کے نرخوں سے متعلق زر اعانت میں کمی اور نئی حکومت کی جانب سے بعض ٹیکس اقدامات متعارف کرائے جانے سے مالیاتی کھاتوں کو متاثر کرنے والے گہرے مسائل سے نمٹنے کے ارادے ظاہر ہوتے ہیں‘‘۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے بیرونی شعبے کے حوالے سے کہا کہ بیرونی کھاتے پر دباؤ 2013ء کے ہر گذرتے مہینے میں بتدریج بڑھا ہے جس کا سبب سرمایہ جاتی اور مالی رقوم کی خالص آمد میں کمی اور آئی ایم ایف کو قرضے کی واپسی ہے‘‘۔
یاسین انور نے کہا کہ اس دباؤ اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی قیاس آرائیوں کے باوجود بازار مبادلہ مالی سال 13ء میں زیادہ تر مستحکم رہا۔
انہوں نے کہا ’’ستمبر 2013ء میں پاکستان کے لیے ایک نئے آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے بعد مزید رقوم آنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ اس سے بازار مبادلہ پر دباؤ کم ہوگا‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’سیاسی صورتحال واضح ہونے کے ساتھ حکومت کی جانب سے مالیاتی استحکام کی نو آغاز کردہ کوششوں سے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھ سکتا ہے اور بین الاقوامی سرمایہ منڈیوں کی جانب پاکستان کی واپسی ہو سکتی ہے‘‘۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا ’’توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا گرانی کی صورتحال پر اثر معمولی نہیں ہوگا۔اس سے نہ صرف گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت پر براہ راست اثر پڑے گا بلکہ خاصے بالواسطہ اثرات کا بھی بہت امکان ہے۔‘‘
’’اسی طرح جی ایس ٹی میں اضافے کے ساتھ بعض استثنیٰ کے خاتمے سے آئندہ مہینوں میں گرانی پر مزید دباؤ پڑ سکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے پیش نظر تیل کی قیمتوں کی صورتحال بھی بگڑ سکتی ہے۔‘‘