قانون ساز کی ’غلط شناخت‘ کا تنازع، جے یو آئی (ف) نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا
ایک تنازع جو بظاہر سیاسی جماعت اور اس کی ایک کارکن کے درمیان شروع ہوا تھا اب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے ایک درخواست کی صورت میں جا پہنچا جس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) نے مؤقف اپنایا کہ ایک ایسی امیدوار مبینہ طور پر شناخت چرا کر انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوگئیں جسے جماعت نے انتخابی میدان میں اتارا ہی نہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) نے پشاور ہائی کورٹ کے 2 اپریل کے اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے صدف احسان کو رکن قومی اسمبلی کے طور پر بحال کیا تھا۔
واضح رہے کہ صدف احسان پر شناخت چرانے اور خیبرپختونخوا سے خواتین کی مخصوص نشست پر جے یو آئی (ف) کی طرف سے کھڑی کی گئی دوسری امیدوار کی نقالی کرنے کا الزام ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل جے یو آئی (ف) کی جانب سے صدف احسان کی پارٹی رکنیت سے انکار کرنے کے بعد الیکشن کمیشن نے ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا تھا۔
سینئر وکیل کامران مرتضیٰ کے توسط سے پیش کی گئی درخواست میں وضاحت کی گئی کہ جے یو آئی (ف) نے خواتین اور غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں کے لیے اپنے امیدواروں کی الگ الگ فہرستیں الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائی۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ کمیشن کو ایک فہرست فراہم کی گئی تھی جس میں حنا بی بی سمیت 3 امیدواروں کی تمام مطلوبہ تفصیلات موجود تھیں، تاہم اصل امیدوار صدف یاسمین کی حد تک ،جن کی صدف احسان نے بظاہر شناخت چرائی، صرف ان کا نام فہرست میں شامل کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے پارٹی کو دیگر تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا تھا۔
درخواست کے مطابق منتخب امیدواروں کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے قبل الیکشن کمیشن کو چاہیے تھا کہ وہ صدف یاسمین کی حد تک فہرست کو مسترد کر دیتا یا پارٹی سے وضاحت طلب کرتا کہ صدف احسان صدف یاسمین ہیں یا نہیں؟
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ جے یو آئی (ف) نے حنا بی بی کو مطلع کیا کہ صدف یاسمین نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے کیونکہ وہ کراچی میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں اور انہوں نے انتخابات میں حصہ نا لینے کا فیصلہ کیا ہے، چنانچہ اس طرح حنا بی بی کو جے یو آئی (ف) کی تیسری معتبر امیدوار تصور کیا جانا چاہیے تھا۔
کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے وقت صدف احسان نے پارٹی کے کسی فرد، جو جانتا تھا کہ صدف یاسمین اپنی نامزدگی کی پیروی نہیں کررہی ہیں، کی ممکنہ ملی بھگت کے ساتھ خود کو صدف یاسمین کے طور پر پیش کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کا پہلا نام ایک جیسا تھا۔
ابتدائی طور پر کمیشن نے 22 فروری کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں 10 میں سے 2 مخصوص نشستیں دی گئیں، ایک مسلم لیگ (ن) اور دوسری جے یو آئی (ف) کو، ان جماعتوں کے منتخب دونوں امیدوار سر فہرست تھے۔
لیکن سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے خلاف فیصلہ ہونے کے بعد کمیشن نے 4 مارچ کو خیبرپختونخوا سے خواتین کی بقیہ 8 نشستوں کے لیے ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں نعیمہ کشور، جو جے یو آئی (ف) کی ترجیحی فہرست میں دوسرے نمبر پر تھیں اور صدف احسان کو منتخب امیدوار کے طور پر درج کیا گیا۔
بعد ازاں حنا بی بی نے 6 مارچ کو الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی جبکہ جے یو آئی (ف) نے بھی 4 مارچ کے نوٹیفکیشن کے خلاف درخواست دائر کی۔
اس کے بعد الیکشن کمیشن نے 11 مارچ کو صدف احسان کی حد تک نوٹیفکیشن معطل کرنے کا اعلامیہ جاری کیا اور 12 مارچ کو ایک پریس ریلیز بھی شائع کی جس میں کہا کہ انہوں نے اس حوالے سے انکوائری شروع کر دی ہے اور وہ معاملے کا فیصلہ کرنے سے پہلے تمام متعلقہ فریقین کو سنیں گے۔
پریس ریلیز میں یہ بھی بتایا گیا کہ ریٹرننگ افسر کو معطل کردیا گیا ہے کیونکہ انہیں صدف احسان کو جے یو آئی (ف) کی امیدوار کے طور پر قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔
الیکشن کمیشن کے سامنے ہونے والی سماعت کے نتائج سے خوفزدہ ہوکر صدف احسان نے درخواست میں جے یو آئی (ف) کو فریق بنائے بغیر 11 مارچ کے نوٹیفکیشن کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔
نتیجتاً 2 اپریل کو پشاور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے صدف احسان کی درخواست منظور کر لی۔
جے یو آئی (ف) نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آئین کے آرٹیکل 51(ای)، الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 اور الیکشن رولز 2017 کے باب 6 کے تحت خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے امیدواروں کا فیصلہ کرنا خالصتاً سیاسی جماعتوں کا اختیار ہے ۔
جماعت نے دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن کے حکام کی غفلت کے باعث سیاسی جماعت اور صحیح امیدوار کو سیٹ سے محروم نہیں کیا جا سکتا، درخواست میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مخصوص نشست پر صدف احسان کا دعویٰ پارٹی کی طرف سے دیا گیا استحقاق تھا، اس طرح صدف احسان اپنی ہی پارٹی کے مؤقف کے خلاف جا کر ہائی کورٹ کے سامنے کسی نشست کا دعویٰ نہیں کر سکتی اور ان کے پاس ایسی مخصوص نشست حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں جو ان کے لیے ہے ہی نہیں۔