ٹوئٹر کی سروس بحال کرنے سے متعلق فیصلہ نہ ہوسکا

سندھ ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں وزارت داخلہ اور پی ٹی اے کی جانب سے رپورٹس جمع کرادی گئیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں وزارت داخلہ اور پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن (پی ٹی اے) کی جانب سے رپورٹس جمع کرائے جانے کے باوجود مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر کی سروس بحالی سے متعلق فیصلہ نہ ہوسکا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت آئندہ ماہ 2 مئی جب کہ سندھ ہائی کورٹ نے بھی آئندہ ماہ 9 مئی تک سماعت ملتوی کردی۔

معزز عدالتوں کی جانب سے کیس کی سماعت ملتوی کیے جانے کے بعد ٹوئٹر کی سروس مزید تقریبا ایک ماہ تک بحال نہیں ہوسکی گی، کیوں کہ دونوں عدالتوں نے حکومت کو اس بار ایکس کی سروس بحال کرنے کے احکامات جاری نہیں کیے۔

دونوں عدالتوں میں الگ الگ درخواست گزاروں کی جانب سے ٹوئٹر کی سروس کی بندش کے خلاف درخواستیں دائر ہیں، جن پر رواں برس فروری سے سماعتیں جاری ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی اے اور وزارت داخلہ سے 17 اپریل تک حتمی رپورٹ طلب کی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں وزارت داخلہ نے جواب جمع کرادیا، جس کے مطابق ایکس کی پاکستان میں بندش خلاف قانون نہیں اور مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ کی سروس کو بند کرنے سے کسی کا بنیادی حق تلف نہیں ہوا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں وزارت داخلہ کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹوئٹر کو قومی سلامتی کے لیے بند کیا، ایکس پاکستان میں رجسٹرڈ ہے، نہ وہ ملکی قوانین کا پاسدار ہے، اس لیے اس کی سروس بندش کے خلاف تمام درخواستیں قابل سماعت ہی نہیں، انہیں خارج کیا جائے۔

دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے پی ٹی اے سے ایک ہفتے تک مکمل رپورٹ طلب کرلی اور کہا کہ بتایا کہ جائے ٹوئٹر کیوں بند ہے؟

ملک بھر میں 17 فروری سے ٹوئٹر کی سروس بند ہے اور اسے بند ہوئے دو ماہ گزر چکے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں وزارت داخلہ کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں ایکس کی بندش کے خلاف درخواستوں کو ابتدائی مراحل پر ہی خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ درخواست گزار کا کوئی بنیادی حق سلب نہیں ہوا۔

وزارت داخلہ کے مطابق ایکس کی بندش کیخلاف درخواست قانون و حقائق کے منافی ہے، قابل سماعت ہی نہیں۔

حکومتی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایکس پاکستان میں رجسٹرڈ ہے نہ ہی پاکستانی قوانین کی پاسداری کے معاہدے کا شراکت دار ہے، ایکس کی جانب سے پلیٹ فارم کے غلط استعمال سے متعلق حکومت پاکستان کے احکامات کی پاسداری نہیں کی گئی جس کے باعث پابندی لگانا ضروری تھا۔

وزارت داخلہ کے مطابق ایکس حکام کا عدم تعاون ایکس کیخلاف ریگولیٹری اقدامات بشمول عارضی بندش کا جواز ہے،حکومت کے پاس ایکس کی عارضی بندش کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود نہیں۔

رپورٹ کے مطابق انٹیلیجنس ایجنسیوں کے درخواست پر وزارت داخلہ نے سترہ فروری دو ہزار چوبیس کو ایکس کی بندش کے احکامات جاری کیے جب کہ ایکس کی بندش کا فیصلہ قومی سلامتی اور امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے کیا گیا۔

وزارت داخلہ نے بتایا کہ شدت پسندانہ نظریات اور جھوٹی معلومات کی تشہیر کیلئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، چند شر پسند عناصر کی جانب سے امن و امان کو نقصان پہنچانے اور عدم استحکام کو فروغ دینے کیلئے ایکس کو بطور آلہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایکس کی بندش کا مقصد آزادی اظہار رائے یا معلومات تک رسائی پر قدغن لگانا نہیں ہے۔

حکومتی رپورٹ کے مطابق ایکس پر بندش کا مقصد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا قانون کے مطابق ذمہ دارانہ استعمال ہے، وزارت داخلہ پاکستان کے شہریوں کی محافظ اور قومی استحکام کی ذمہ دار ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس سے قبل حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر بھی بین لگایا گیا تھا، ٹک ٹاک کی جانب سے پاکستانی قانون کی پاسداری کے معاہدے پر دستخط کے بعد بین کو ختم کردیا گیا تھا۔

وزارت داخلہ نے دلیل دی کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر دنیا بھر میں مختلف ممالک کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کی جاتی ہے،ایکس کی بندش کیخلاف درخواستوں کو خارج کردیا جائے۔

حکومت کو ایکس بندش کی وجوہات بتانے، رپورٹ جمع کرانے کا حکم

قومی سلامتی کیلئے ’ایکس‘ کو بند کیا، وزارت داخلہ

قابلِ اعتراض مواد شائع کرنے پر 12 لاکھ 50 ہزار یو آر ایلز کو بلاک کیا، پی ٹی اے