نقطہ نظر

گوڈزیلا کونگ: دی نیو ایمپائر

مونسٹر ورس سلسلے کی پانچویں اور تازہ ترین فلم پاکستان سمیت دنیا بھر کے باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے اور ہر گزرتا دن اس کی پسندیدگی میں اضافہ کررہا ہے۔

عالمی سینما کے منظرنامے پر کئی ایسی کہانیاں اور کردار ہیں جنہیں ایک بار مقبولیت مل گئی تو پھر فلم سازوں نے انہی کرداروں پر مرتکز ہوکر ایسی فلمیں بنائیں جو ہر بار فلم بینوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے اور باکس آفس پر کامیاب رہیں۔ یہ تاثر اب فارمولا فلموں کے لیے ایک سنگِ میل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جس کی ایک مثال زیر نظر فلم ’گوڈزیلا کونگ: دی نیو ایمپائر‘ ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریلیز ہونے والی یہ فلم باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے اور ہر گزرتا دن اس کی پسندیدگی میں اضافہ کررہا ہے۔ مونسٹر ورس سلسلے کی پانچویں اور تازہ ترین فلم کا مفصل تبصرہ و تجزیہ آپ کی پیشِ خدمت ہے۔


تجارتی فلموں کا عام آزمودہ فارمولا


ہالی وڈ میں دیوہیکل کرداروں پر مبنی فلموں کی تعداد کافی زیادہ ہے اور ایسی فلموں کو پسند کرنے والے فلم بین بھی ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انگریزی زبان میں بننے والی یہ فلمیں اب دنیا بھر میں جن ممالک میں ریلیز کی جاتی ہیں، وہاں مقامی زبانوں میں انہیں ڈب کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس کا اردو ورژن پیش کیا جارہا ہے جوکہ دراصل ہندی ڈبنگ ہے جسے بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستانی سینما گھروں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کم وبیش دونوں زبانیں سمعی طور پر ایک جیسی ہیں تو یوں کام چل جاتا ہے۔ البتہ پاکستان کی مارکیٹ مختصر ہے، اس لیے ان مغربی فلموں کے تجارتی ادارے بھارت جیسی مارکیٹ کے رجحانات سامنے رکھتے ہوئے اپنی فلمیں پیش کرتے ہیں۔


فلم سیریز کا پس منظر


گوڈزیلا کونگ مونسٹر ورس کی پانچویں فلم ہے۔ اس سے پہلے چار فلمیں باکس آفس پر حکمرانی کرچکی ہیں۔ یہ فلم گوڈزیلا ورسس کونگ کا سیکوئل ہے۔ ان میں گوڈزیلا کا کردار جاپانی کامک لٹریچر سے لیا گیا ہے جبکہ کنگ کونگ امریکی کامک لٹریچر کا کردار ہے۔

گوڈزیلا ایک قدیم جاپانی کردار ہے جس پر اب تک مجموعی طور پر کُل 38 فلمیں بن چکی ہیں جبکہ کنگ کونگ سیریز میں اب تک 13 فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ ان دونوں فلم سیریز کی یہ پانچویں مقبول ترین فلم ہے اور گمان ہوتا ہے کہ مستقبل میں دونوں کرداروں کے اشتراک کو جاری رکھا جائے گا۔

امریکا اور عالمی سینما کی دیگر منڈیوں میں اس فلم کی تقسیم اور نمائش کے حقوق امریکیوں وارنر بروس پکچرز کے پاس ہیں لیکن جاپان کے لیے اس کے حقوق جاپانی پروڈکشن اور تقسیم کار کمپنی توہو کے پاس ہیں۔ 

اس فلم کی نمائش سے قبل جس طرح پوری دنیا میں اس کی اشتہاری مہم چلائی گئی جوکہ کافی محنت طلب کام ہے جس کی وجہ سے فلم بین متوجہ ہوتے ہیں۔ یورپ کے ایئرپورٹس، امریکا کے ہوائی اڈوں، شاپنگ مالز، پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں پیشگی ٹریلر کی نمائش اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی فلم کو نمائش پذیر کرتے ہوئے ہر تجارتی پہلو کا خیال رکھتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے فلم بین اب اس طرز کی فلموں کا انتظار کرتے ہیں کیونکہ ایسی فلم سیریز شوق کی حد کو عبور کرتے ہوئے فلم بینوں کی عادت بن چکی ہیں۔ نئی نسل اور بچوں میں یہ کردار اب ایک عادت کی مانند ہیں جس سے پیچھا چھڑانا اب مشکل ہونے لگا ہے۔ جبکہ دوسری جانب سنجیدہ فلم بینوں کے لیے یہ پُرکشش نہیں۔


پروڈکشن ڈیزائن


اس نوعیت کی فلموں میں تکنیکی ہنرمندوں کا عمل دخل اداکاروں کے اثرورسوخ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جوکہ عام فیچر فلموں میں کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس فلم کے دونوں مرکزی کرداروں کی اپنی تاریخ ہے جس پر ایک الگ تحریر درکار ہوگی۔ بہرحال 15 کروڑ ڈالرز کی لاگت سے تیار کی گئی یہ فلم اب تک لگ بھگ 40 کروڑ ڈالرز کا بزنس کرچکی ہے اور اس میں اضافے کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ سوا گھنٹے کے دورانیے پر محیط اس فلم کو مقبول ترین مغربی پروڈکشن کمپنی ’لیجنڈری پکچرز‘ کے چھ مرکزی پروڈیوسرز کے تعاون سے تخلیق کیا گیا ہے۔ اس فلم کے اداکاروں اور ہنرمندوں کو پوری دنیا سے جمع کیا گیا ہے۔

اس فلم کے ہدایت کار امریکی ہیں جبکہ سینماٹوگرافر کا تعلق نیوزی لینڈ سے ہے۔ اسکرین پلے لکھنے والے تینوں اسکرپٹ رائٹرز امریکی جبکہ ساؤنڈ ٹریکس اور بیک گراؤنڈ میوزک ڈنمارک کے موسیقار نے دیا ہے۔ فلم کے اداکاروں میں امریکی، برطانوی اور چینی اداکار شامل ہیں۔

فلم کی ترسیل اور دیگر تجارتی پہلوؤں میں چین اور جاپان دونوں شامل ہیں۔ اس فلم کو ہالی وڈ کے علاوہ آسٹریلیا میں بھی فلمایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اٹلی اور فرانس کے علاوہ برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو اور مصر کے مناظر بھی شامل کیے گئے ہیں۔ تین سال کی مدت میں گوڈزیلا ورسس کونگ کے سیکوئل کو تیار کیا گیا ہے۔ ویژول ایفیکٹس بھی بہت اچھے اور جاندار ہیں اسی لیے تھری ڈی اور ٹو ڈی دونوں فارمیٹ میں فلم کو بنایا گیا اور دونوں ہی فارمیٹ فلم بینوں کے لیے پُرکشش ہیں۔


اسکرپٹ و دیگر لوازمات


اس فلم کی سب سے اہم چیز کہانی اور اس کے کردار ہیں۔ مذکورہ فلم کی کہانی کا پس منظر ’ہولو ارتھ‘ ہے یعنی یہ ایک ایسا سائنسی نظریہ جس کے مطابق زمین کے نیچے بھی ایک دنیا آباد ہے جبکہ حقیقی طور پر یہ نظریہ مسترد ہوچکا ہے لیکن اس فلم میں اس کو حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ہماری زمین کے اوپر گوڈزیلا رہتا ہے جبکہ ہماری زمین کے نیچے کی دنیا میں کونگ رہائش پذیر ہے۔ پھر خطرے کو محسوس کرتے ہوئے دونوں دیوہیکل کردار مل جاتے ہیں اور مشترکہ لڑائی لڑ کر اس دنیا کو بچاتے ہیں۔

انسانوں کا کوئی خاص مرکزی کردار نہیں۔ انہوں نے اس کہانی میں بس بطور معاون اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کہانی کا کلائمکس کمزور کڑی تھا جس نے فلم بین کے لیے اکتاہٹ کا سامان پیدا کی۔


ہدایت کاری


اس فلم کے ہدایت کار ایڈم ون گارڈ ایسی فلموں کی تخلیق میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے انہوں نے آسانی سے اس سیریز کو مقبول اور پُراثر بنانے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ انہوں نے کمرشل پہلوؤں کو بھی ذہن میں رکھا اور سوشل میڈیا سمیت روایتی اشتہاری مہم سے فلم کو نمایاں بھی کرتے رہے۔ حتیٰ کہ یہ عیدالفطر کے موقع پر اسلامی ممالک اور عمومی طور پر پوری دنیا میں اپنی ہائپ بنانے میں کامیاب رہی۔ 

فلم میں تدوین وعکاسی، ملبوسات، عکس بندی کے مقامات سمیت صوتی وبصری اثرات نے کہانی کو بھی ان دیوہیکل کرداروں کی طرح بڑا بنادیا۔ ایک عام فہم فلم بین پر اپنا سحر قائم کرنا ایک مشکل عمل تھا جس میں یہ ہدایت کار کامیاب رہے۔ موسیقی کا شعبہ کافی متاثر کن رہا اور آڈیو انجینئرنگ کا معیار بھی فلم کی مجموعی شکل کو معیاری بنانے میں پیش پیش رہا۔


اداکاری و بصری اثرات


اس فلم میں اداکاری کا تناسب کافی کم تھا پھر بھی دباؤ والے مناظر میں کامیڈی کا امتزاج پیش کرنے کی کوشش کی گئی جن میں اداکار زیادہ کامیاب دکھائی نہیں دیے۔ فلم کے مرکزی کردار ’ریبیکا ہال‘ سے لےکر چینی نژاد امریکی جونیئر اداکارہ ’کیلی ہوٹیل‘ تک، اداکاری کمزور دکھائی دی۔

معروف امریکی کامیڈین برائن ٹائری ہینری نے بہت روایتی، بوجھل، یکسانیت سے بھرپور اور جیسی وہ ہر فلم میں کامیڈی کرتے ہیں، اس فلم میں بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔ یہ فلم اداکاری کے شعبے میں غیر معیاری ثابت ہوئی البتہ گوڈزیلا اور کونگ سمیت حیوانوں کے تاثرات اور ویژول ایفکیٹس کا کام زیادہ متاثر کُن ثابت ہوا جو اس سلسلے کی ہر نئی فلم کے ساتھ مزید نکھر رہا ہے۔


تھری ڈی ورژن اور اس کے کمالات


اس فلم کی چند ایک خوبیوں میں سے ایک اس کا تھری ڈی ورژن ہے۔ اس فلم کی بڑھتی ہوئی پسندیدگی اور مقبولیت کے پیچھے مکمل طور پر تھری ڈی اینی میشن اور ویژول ایفکیٹس کا ہاتھ ہے۔ تھری ڈی ورژن جب بھی بنایا جاتا ہے تو آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ اینی میشن اور ویژول ایفیکٹس کا اشتراک ہوتا ہے۔ اس فلم کے اینی میشن ورک کے سربراہ ’لوڈووِک شیولیولی‘ اور وی ایف ایکس کے نگران ’کیون اینڈریو اسمتھ‘ہیں، ان دونوں نے اپنی ٹیم کے دیگر ممبران کے ہمراہ اپنے تئیں عمدہ کام کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فلم بینوں کی اکثریت اس کا تھری ڈی ورژن دیکھنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ ہرچند کہ اس کا ٹو ڈی ورژن بھی دیکھنے کے دستیاب ہے جو ایک عام فلم کی طرح دیکھا جا سکتا ہے لیکن تھری ڈی ورژن میں آپ کو مخصوص چشمے پہننے پڑتے ہیں تب ہی آپ اس تخلیقی عمل کو محسوس کرسکتے ہیں جسے اینی میشن اور وی ایف ایکس کا اشتراک یعنی ’تھری ڈی‘ کہا جاتا ہے۔ اس ورژن کے تحت آپ کو ایسے مناظر فلم میں دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں حقیقت میں فلمانا ممکن نہیں ہے جیسے کہ اس فلم میں ’اہرام مصر‘ کی تباہی یا پھر اٹلی کی تاریخی عمارتوں کا منہدم ہوتے دکھانا وغیرہ وغیرہ۔

ہمارا مشورہ ہے کہ اگر آپ یہ فلم دیکھنا چاہتے ہیں تو اسے تھری ڈی ورژن میں دیکھیں تاکہ آپ اینی میشن اور وی ایف ایکس کے کمالات بھی دیکھ سکیں۔ ایسی فکشن فلموں کو بنایا ہی اس طرح جاتا ہے کہ تخیل کے زور پر ایسے مناظر تخلیق کیے جاسکیں جن کا عام زندگی میں تصور نہیں کیا جاسکتا۔ آج کے زمانے میں کہانی بیان کرنے کے جدید انداز کو دوسرے الفاظ میں تھری ڈی کہا جاتا ہے۔


حرف آخر


ان کرداروں کو پسند کرنے والوں کے لیے یہ فلم باعث کشش ہے مگر عام فلم بین کے لیے اس میں کچھ نہیں۔ اس کے باوجود اس فلم کا عالمی باکس آفس بزنس بڑھ رہا ہے۔ یہ حیران کُن عمل ہے یا پھر عمدہ مارکیٹنگ کا جادو جو اس فلم کے ساتھ پوری طرح نتھی ہوتا دکھائی دیا۔ اگر آپ گوڈزیلا اور کونگ کے مداح ہیں اور کامک کہانیوں اور کرداروں سے دلچسپی رکھتے ہیں تو یہ فلم آپ کے لیے موزوں ہے۔

مجموعی طور پر بھی یہ فلم ناقدین کی نظر میں 50 فیصد تناسب کے قریب پہنچی۔ تجارتی شرح تناسب اس سے کہیں زیادہ ہے مگر آنے والے دنوں میں اس فلم سیریز کے لیے یہ بات ایک چیلنج بن سکتی ہے کہ اسے مزید غیر معیاری ہونے سے بچانے کے لیے مزید کیا کیا جائے۔

فی الحال تو اس کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا پھر بھی فلم کی کامیابی بڑھ رہی ہے جسے میں ایک حسین اتفاق ہی کہہ سکتا ہوں۔ شاید قدرت کی دیوی ان پر مہربان ہے ورنہ فلم میں جان نہیں۔ دنیا بھر میں یہ فلم دو ہفتے پہلے ریلیز کی گئی جبکہ پاکستان میں اسے عید سے چند دن قبل ریلیز کیا گیا مگر یہ عید پر اب تک دیکھی جانے والی سب سے بڑی فلم ثابت ہوئی ہے۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔