نقطہ نظر

پاکستان کی طرح بھارتی انتخابات میں اے آئی کا کس طرح استعمال کیا جارہا ہے؟

اگرچہ مصنوعی ذہانت کا سیاسی استعمال ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے لیکن لوک سبھا کے انتخابات سے یہ اندازہ ہوگا کہ ٹیکنالوجی سیاست کو کیا رنگ دے گی۔
|

گزشتہ سال دسمبر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے وارانسی شہر میں تامل زبان بولنے والوں سے خطاب کیا۔ وہ ان سے ہندی زبان میں مخاطب تھے لیکن سامعین ان کی آواز نہیں سن رہے تھے کیونکہ انہوں نے کانوں میں ایئرفونز لگا رکھے تھے۔ مودی ہندی میں تقریر کررہے تھے جبکہ حاضرین مصنوعی ذہانت کی مدد سے تامل میں ان کی تقریر سن رہے تھے۔ اگرچہ آواز نریندر مودی کی نہیں تھی لیکن الفاظ ان ہی کے تھے۔

یہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے ایسی ریاست کے ووٹرز سے رابطہ قائم کرنے کی حالیہ کوششوں میں سے ایک تھی جہاں ہندی مخالف سیاست کی مضبوط تاریخ وابستہ ہے اور وہ روایتی طور پر بی جے پی کو مسترد کرتے آئے ہیں۔

’بھاشینی‘ کی وجہ سے مودی کی باتوں کا تامل میں ترجمہ ممکن بنایا گیا جو بھارتی حکومت کی جانب سے تیار کردہ ایک ایپلی کیشن ہے جسے عوام باآسانی ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔ ایپلی کیشن کا مقصد لسانی اعتبار سے متنوع ملک بھارت میں زبان کی تقسیم کو ختم کرنا ہے۔

جہاں ایک جانب بھارت میں یہ ہورہا تھا یہاں پاکستان میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کچھ زیادہ ہی شاندار اور انوکھا کام کررہے تھے۔ جیل میں ہونے کی وجہ سے پاکستان کے عام انتخابات سے قبل اپنے سپورٹرز سے بات چیت کرنے سے قاصر عمران خان کے پیغامات مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ آڈیو کلپس کے ذریعے نشر کیے جارہے تھے۔

نریندر مودی کے برعکس، عمران خان کے اے آئی کلپس انہیں کی آواز میں تھے۔ اس نے پاکستانی ووٹرز کو یہ باور کروایا کہ انتخابات لڑنے سے روکنے کے باوجود ان کا لیڈر ان کے درمیان موجود ہے۔ عمران خان نے جیل میں رہتے ہوئے بھی ورچوئل مہم جلسوں کے لیے اے آئی کا استعمال کیا۔

اس سب کا نتیجہ 8 فروری کو ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ اگرچہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اس کے انتخابی نشان سے محروم اور امیدواروں کو آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے پر مجبور کیا گیا تھا لیکن اس سب کے باوجود پی ٹی آئی نے پاکستان کے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کی۔

2013ء سے پی ٹی آئی عمران خان کے اسلام آباد دھرنے کے دوران سپورٹرز تک رسائی کے لیے ڈیجیٹل ٹولز اور سوشل میڈیا کا استعمال کررہی ہے۔ ایسے میں ایک قدم آگے بڑھ کر مصنوعی ذہانت کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال منطقی تھا۔

اگرچہ اے آئی سیاسی حوالوں سے اپنے ابتدائی مراحل میں ہے لیکن یہ دو واقعات اس بات کی مثال دیتے ہیں کہ یہ ماحول کیسے تشکیل پارہا ہے اور اس کے نتیجے میں مستقبل میں سیاست کیا شکل اختیار کرسکتی ہے۔

نئی ٹیکنالوجی اور اس سے موافقت

کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر سجاد حیدر نے اس پر شک کا اظہار کیا کہ نریندر مودی کی تقریر کا ترجمہ اے آئی کے استعمال سے اسی وقت میں کیا گیا تھا جب وہ تقریر کررہے تھے۔ ان کا خیال ہے کہ تقریر کو پیش کرنے سے پہلے اسے ریکارڈ کیا گیا تھا اور پھر ترجمہ کرکے اسے ایئرفونز کے ذریعے ہجوم تک پہنچایا گیا تھا۔

سجاد حیدر نے کہا، ’مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی سیاست دان خطاب کرتے ہوئے مکمل طور پر اے آئی پر انحصار کرے گا کیونکہ اس کا کریئر اور ساکھ داؤ پر لگے ہوتے ہیں۔ اے آئی جلسے کے وقت استعمال ہونے والی زبان کے الفاظ، جذبات اور باریکیوں کا ترجمہ کرنے میں ناکام بھی ہوسکتا ہے‘۔

بھارتی خبر رساں اداروں نے دعویٰ کیا تھا کہ نریندر مودی کی تقریر کا اسی وقت تامل زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ بھارت میں ٹیکنالوجی کے ماہرین نے تصدیق کی کہ ترجمہ کو تیار رکھنے کے لیے ہندی تقریر کا ایک تیار شدہ ورژن پہلے ہی بھاشنی میں فیڈ کردیا گیا تھا۔

سجاد حیدر نے بتایا کہ ’عمران خان کی تقریر بھی اسی طرح پہلے سے لکھے گئے مواد پر مشتمل تھی جسے ان کی آواز کی کلوننگ کے ذریعے ریکارڈ کیا گیا تھا۔ براہ راست نشر کرنے کے لیے اے آئی کا ایسا استعمال انتہائی مشکل ہے‘۔

دونوں صورتوں میں ٹیکنالوجی کو جدید طریقوں سے بروئے کار لایا جارہا ہے۔

اگرچہ اے آئی کے استعمال کے حوالے سے بحث میں زیادہ تر جمہوری عمل پر اس کے مضر اثرات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے لیکن یہ ٹیکنالوجی اگر بے اختیار نہیں تو بے آواز لوگوں کی آواز ضرور بن رہی ہے۔

چنئی میں مقیم ایک اسٹارٹ اپ کے بانی سینتھل نیاگم نے کہا کہ پہلے اس کام کے لیے ہالی وڈ فلموں کے بجٹ کی ضرورت ہوتی تھی لیکن اب اس لاگت کے ایک حصے سے یہ کام ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’اے آئی نے ان چھوٹی سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دی ہے جن کے پاس بڑی سیاسی جماعتوں جیسے مالی وسائل نہیں ہیں‘۔

سینتھل نیاگم نے کہا کہ امریکا اور دیگر ممالک میں سیاسی جماعتیں ٹیلی ویژن کے اشتہارات پر خرچ کرتی ہیں اور ’اب آپ اے آئی کے استعمال سے ایسا سکتے ہیں‘۔

سینتھل نیاگم جنریٹو اے آئی اسٹارٹ اپ Muonim Inc کے بانی ہیں۔ وہ اس سال اس وقت نظروں میں آئے جب ان کی کمپنی نے تامل ناڈو کے حکمران دراوڑ منیترا کزگم کے سب سے بڑے سیاستدانوں میں سے ایک ایم کروناندھی کی زندگی کا ڈیجیٹل ورژن دوبارہ تیار کیا۔ ایم کروناندھی کا انتقال 2018ء میں ہوا لیکن جنوری میں ان کے اے آئی ورژن نے جماعت کے رہنما کی کتاب کی رونمائی کے موقع پر آٹھ منٹ کی تقریر کی۔

سیاسی جماعتیں اپنے بجٹ کے ایک بڑے حصے سے اے آئی کو ہائپر پرسنلائزڈ پیغامات بنانے اور بیک وقت لاکھوں افراد تک رسائی کی طاقت کا استعمال کررہی ہیں۔

وکیل اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی ماہر نگہت داد نے کہا کہ اے آئی نے پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، آن لائن اسپیسز اور واٹس ایپ کے ذریعے رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

نگہت داد لاہور میں قائم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ میٹا کے اوور سائیٹ بورڈ کی رکن بھی ہیں، کہتی ہیں کہ سیاسی جماعتیں تقریروں، ڈیجیٹل ریلیاں نکالنے اور فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرتی ہیں۔

مختلف جماعتوں کے ساتھ کام کرنے والے بھارتی سیاسی مہم کے انتظامی تنظیم کے ایک سینیئر رکن نے کہا کہ بڑی جماعتوں کو ہر قسم کے ووٹر ڈیٹا تک رسائی حاصل ہوتی ہے جنہیں ذاتی نوعیت کے پیغامات بھیجنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ’اقتدار میں آنے والی جماعت کے پاس زیادہ باریک تفصیلات ہوتی ہیں لیکن بوتھ کی سطح پر ووٹر کا پورا پروفائل زیادہ تر سیاسی جماعتوں کو دستیاب ہوتا ہے۔ اے آئی کا استعمال کرتے ہوئے، سیاسی جماعت براہ راست ووٹر کے موبائل فون پر ذاتی نوعیت کے پیغامات بھیج سکتی ہیں۔ ایک مقامی سیاست دان کا ووٹر کو اس کے نام سے مخاطب کرنے سے بہت فرق پڑتا ہے‘۔

پاکستان میں انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں کے لیے اس طرح کی فون کالز اور ووٹرز سے رابطے کے کافی مثبت اثرات مرتب ہوئے۔

نگہت داد نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے بڑی تعداد میں ووٹرز کے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے لیے اے آئی کا استعمال کیا جس سے ہر ووٹر کی تفصیلی پروفائل بنانے میں مدد ملی۔ مختلف ووٹر کی کیٹیگریز کی ترجیحات، دلچسپیوں اور آبادیات تک رسائی کا مطلب یہ تھا کہ سیاسی جماعتیں ٹارگٹڈ اور منظم مہمات کرسکتی ہیں’۔

یہ پی ٹی آئی کے لیے فیصلہ کُن ثابت ہوا جب جنوری میں الیکشن کمیشن نے ان کا انتخابی نشان (بلا) الاٹ کرنے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے امیدواروں کو انفرادی نشانات پر انتخاب لڑنے پر مجبور کیا گیا جو ووٹرز کو الجھن میں مبتلا کرسکتا تھا۔ پی ٹی آئی نے مخصوص حلقوں میں امیدواروں کی تفصیلات اور الاٹ کردہ نشانات ووٹرز کو بھیجے۔

اسی طرح حلقہ وار تمام ووٹرز کی تفصیلات اے آئی کی مدد سے تمام امیدواروں کو بھیجی گئیں تاکہ وہ انفرادی طور پر نچلی سطح پر ووٹرز سے رابطہ کریں۔ اسی ٹیکنالوجی کو پھر جیل میں قید عمران خان کو ملک بھر کے پی ٹی آئی ووٹرز سے جوڑنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔

سابق وزیراعظم قید کے دوران اے آئی کا استعمال کرکے اپنے خیالات پہنچانے کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہے۔ مثال کے طور پر دی اکانومسٹ نے جنوری میں ایک مضمون شائع کیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ عمران خان کا لکھا ہوا مضمون ہے۔ اگرچہ اخبار نے کوئی تردید شائع نہیں کی لیکن عمران خان نے دعویٰ کیا کہ یہ مضمون سے آئی ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے ان کی باتوں کو فیڈ کرکے لکھا گیا تھا جو انہوں نے جیل میں اپنے ملاقاتیوں کو بتائی تھیں۔

اس طرح ٹیکنالوجی نے پاکستان تحریک انصاف کو مخالف سیاسی ماحول پر قابو پانے میں مدد کی۔

سیاست اور کاروبار

بھارت کے اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام میں ایسی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اس حوالے سے لوگوں کی دلچسپی میں اضافہ ہورہا ہے لیکن ساتھ ہی ہچکچاہٹ بھی واضح ہے۔

سیاسی جماعتوں کو اے آئی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں معلوماتی مواد تیار کرنے اور اس سلگ فیسٹ میں حصہ لینے کے درمیان ایک باریک حد کو عبور کرسکتی ہیں اور جھوٹ اور ذاتی حملوں کے لیے بھی اس کا استعمال کرسکتی ہیں۔ سینتھل نیاگم نے کہا ’میرے پاس ایسا مواد بنانے کی کوئی وجہ نہیں ہے جو میرے لیے مسائل پیدا کرے۔ جھوٹے اور منفی مواد سے ہم دور رہنا چاہتے ہیں‘۔

تشہیری صنعت اور ہندی فلم انڈسٹری کے لیے اے آئی مواد بنانے والی ایک اور کمپنی کے مالک نے کہا کہ کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ کاروبار کرنا، ان کے غیر سیاسی کلائنٹس کو پریشان کرتا ہے۔ ’انتخابات کا کاروبار سال میں صرف چند دن کا ہوتا ہے جبکہ پارلیمانی انتخابات ہر پانچ سال میں صرف ایک بار ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہمارے بنیادی کلائنٹس کو خطرے میں ڈال کر انہیں غیر محفوظ محسوس کروانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے جن سے سال بھر ہمارا کاروبار چلتا ہے‘۔

سیاسی جماعت کے ساتھ کاروبار کرنے والی کمپنیوں سے حریف جماعتیں دور رہتی ہیں۔ ایک پارٹی اور اس کے نظریے سے وابستگی کاروبار کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے، خاص طور پراس وقت جب سیاسی کلائنٹ اقتدار حاصل کرنے یا دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔

کاروبار کو ایک جانب رکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاست میں اے آئی کے استعمال کی اخلاقی اقدار کے مطابق رہنمائی کرنی چاہیے۔

بھارتی اے آئی کمپنیوں کے ایک گروپ بشمول Dubverse اور Polymat Synthetic Media Solutions اور Muonim نے ایک ’ایتھیکل اے آئی کولیشن مینی فیسٹو‘ جاری کیا ہے۔ منشور میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’جمہوری عمل کی سالمیت‘ کو برقرار رکھا جائے گا اور ’اے آئی ٹیکنالوجیز انتخابات میں ہیرا پھیری، غلط معلومات پھیلانے، یا سیاسی اداروں پر عوامی اعتماد کو مجروح کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا‘۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے اے آئی ٹولز کو ’شفاف، محتسب اور تعصب سے پاک‘ ہونا چاہیے۔

اے آئی کے خطرات اور ووٹرز

اگرچہ سیاست دان اے آئی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن اس سب کے درمیان ووٹرز کو باخبر اور روشن خیال انتخاب کرنے میں مدد کرنے کے لیے بہت کم کوششیں کی گئی ہیں۔

ڈیٹا جرنلزم اور انفارمیشن پورٹل فیکٹلی کے بانی راکیش ڈبوڈو اس حوالے سے آگے بڑھے ہیں۔ راکیش ڈبوڈو اور ان کی ٹیم نے ایک نیا پلیٹ فارم ’tagore.ai‘ شروع کیا ہے جسے وہ ’اے آئی کی طاقت کے ساتھ ایک معتبر معلوماتی نظام‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔

اس پلیٹ فارم نے پارلیمانی ریکارڈ، حکومتی ڈیٹا بیس، بجٹ تقاریر، تاریخی سرکاری پریس ریلیز جیسے ذرائع سے معلومات کو منظم کیا ہے جس سے حکومتی پالیسی کے بارے میں آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے۔

اس پورٹل کو ابھی وسیع تر استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، مگر یہ پورٹل وفاقی حکومت کی فلاحی اسکیمز کے بارے میں تفصیلی معلومات، سوال کے ساتھ انتخابی نتائج کا تجزیہ، سیاست دانوں کے ذریعے کیے گئے سابقہ وعدوں کے لفظی متن اور تاریخی پارلیمانی سوالات تک رسائی کے ساتھ ساتھ متعدد سرکاری و مالی معلومات فراہم کرتا ہے۔

راکیش ڈبوڈو نے جھوٹی معلومات فراہم کرنے والے جنریٹیو ماڈلز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’آج اے آئی سے سب سے بڑا خطرہ فریب کاری ہے‘۔ Tagore AI کے ساتھ راکیش ڈبوڈو اور ان کی ٹیم ڈیٹا بیس کو تیار کرتے ہوئے فریب کاری کے خطرے کو کم سے کم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

راکیش ڈبوڈو نے کہا کہ متعلقہ لنکس کے ساتھ درست اور قابلِ اعتماد معلومات فراہم کرنے سے تحقیق کا وہ وقت بچ سکتا ہے جو سرچ انجن اور دیگر ذرائع سے تحقیق میں استعمال ہوگا۔ یہ سب جمہوریت کے تناظر میں اہم ہے کیونکہ اس کے لیے معتبر معلومات اور ذرائع تک فوری رسائی انتہائی ضروری ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود بھارت میں اپریل کے وسط تک پولنگ شروع ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات اور تشویش پائی جاتی ہے۔ مہینوں پہلے ہونے والے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیپ فیک ویڈیوز اور دیگر ملٹی میڈیا مواد کا استعمال دیکھا گیا تھا۔

ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے جنوری میں جاری کردہ گلوبل رسکس رپورٹ 2024ء میں خبردار کیا گیا کہ اے آئی سے پھیلنے والی غلط معلومات بھارت اور پاکستان دونوں کے لیے مشترکہ خطرہ ہے۔

پلیٹ فارمز پہلے ہی غلط معلومات کے متوقع سیلاب کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔

رواں سال جنوری میں Open AI نے کہا کہ وہ ایسے ٹولز پر کام کررہا ہے جو ’ووٹرز کو اعتماد اور بھروسے کے ساتھ تصویر کا اندازہ لگانے کے لیے بااختیار بنائیں گے کہ یہ تصاویر کیسے بنائی گئی ہیں‘۔ ایک ماہ بعد میٹا نے بھارت میں حقائق کی جانچ کرنے والی اپنی ہیلپ لائن کا اعلان کیا۔

میٹا کے اوور سائیٹ بورڈ کی رکن نگہت داد کہتی ہیں انگریزی اور دیگر تین زبانوں کے لیے واٹس ایپ کی ہیلپ لائن ایک خوش آئند اقدام ہے لیکن یہ پھر بھی ناکافی ہے۔ انہوں نے کہا ’صرف چار زبانوں کی وجہ سے بہت سے لوگ جو مختل زبان بولتے ہیں وہ غلط معلومات اور ڈیپ فیکس کے ریڈ فلیگز کو سمجھ نہیں پائیں گے‘۔

نگہت داد نے کہا کہ انتخابی موسم میں غلط معلومات کے پھیلاؤ میں ڈیپ فیکس اور اے آئی کا کردار، مشترکہ کوششوں کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں کئی ڈیپ فیک ویڈیوز موجود تھیں جن میں سے کچھ میں انتخابات سے بائیکاٹ کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سیاسی جماعتیں اپنے ایجنڈے کے ساتھ ووٹرز تک رسائی حاصل کرکے ان سے کیے گئے وعدوں، وہ کس طرح مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں اور زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے بھی اے آئی کا مثبت استعمال کر سکتی ہیں۔

راکیش ڈبوڈو نے کہا کہ اے آئی کے سیاسی استعمال کے ابتدائی دن ہیں لیکن غلط استعمال کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے جو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

لبنیٰ جرار

مصنفہ سینئر صحافی ہیں جن کا قلم انسانی حقوق، سماجی مسائل، خواتین اور بچوں سے متعلق معاملات پر بہ خوبی چلتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
سائی منیش
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔