نقطہ نظر

’اس سال میری زبان سے ’عید مبارک‘ ادا نہیں ہوپایا‘

فلسطینیوں کی ہولناک نسل کشی کے حوالے سے دنیا کے خاموش ردعمل کی وجہ سے اس سال میری زبان سے 'عید مبارک' ادا نہیں ہوپایا ہے۔

گزشتہ ہفتے ورلڈ سینٹرل کچن کے سات رضاکاروں کی گاڑی پر ٹارگٹڈ حملے نے شدید بین الاقوامی ردِ عمل کو جنم دیا جن کی جگہ اگر فلسطینی یا اگر زیادہ وسیع پیمانے پر کہیں، عرب ہوتے تو کبھی بھی دنیا کا ایسا ردِعمل سامنے نہ آتا۔ اس میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کی کوئی ’غلطی‘ نہیں تھی بلکہ یہ تو اس پیٹرن کا حصہ تھا جس پر وہ 7 اکتوبر کے بعد سے عمل پیرا ہے۔

اسرائیل کے ردعمل کے بعد جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے دھمکی دی گئی کہ ’اگر بنیامن نیتن یاہو حکومت نے شہریوں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات نہ کیے‘، جس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک کی گئی کوششیں (اگر واقعی کی گئی ہیں تو وہ) ناکافی ثابت ہوئی ہیں۔ واضح طور پر یہ اقدمات انتہائی کم ہیں۔ نسل کشی کی اس مہم کے صرف ایک پہلو کا حوالہ دینے کے لیے بتاتا چلوں کہ سرکاری طور پر 15 سے 20 عام شہریوں کو قتل کرنا حماس کے ہر مشتبہ جونیئر کارکن کے لیے جائز سمجھا جاتا تھا جبکہ سینیئر افسران کو مبینہ طور پر جنگ میں ’جانی نقصان‘ کی صورت میں 100 سے زائد افراد قتل کرنے کی اجازت تھی۔

یہ تفصیلات رواں ماہ اسرائیلی میگزین 972+ میں یوول ابراہم کی ایک رپورٹ کے ذریعے سامنے آئیں جس میں ’لیوینڈر‘ کے نام سے ایک اے آئی پروگرام کے وجود کا انکشاف ہوا جو ’بڑے پیمانے پر ڈیٹا‘ کی بنیاد پر قتل کے لیے اہداف منتخب کرتا ہے۔ یوول ابراہم کے اسرائیلی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق آئی ڈی ایف، جنگ کے شروعاتی مہینوں کے دوران ’تقریباً مکمل طور پر لیوینڈر پر انحصار کرتا تھا جس نے 37 ہزار فلسطینیوں کو عسکریت پسند قرار دیا‘۔ انہوں نے ایک ذرائع کا حوالہ دیا جس نے اس بات کو تسلیم کیا کہ انٹیلی جنس اہلکاروں نے ’بمباری کی اجازت دینے سے پہلے ہر ہدف کو 20 سیکنڈ‘ سے کچھ زیادہ سیکنڈز کا ہی وقت دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’مزید خودکار نظام بشمول ’ویئر اِز ڈیڈی‘ استعمال کیے جاتے ہیں جوکہ ہدف بنائے گئے افراد کو ٹریس کرتے ہیں اور رہائش گاہوں میں داخل ہونے پر بمباری کرتے ہیں‘ تاکہ ممکنہ طور پر متعلقہ افراد کے اہلِ خانہ کو بھی بیک وقت نقصان پہنچایا جا سکے۔ جیسے کہ بعض ربیوں اور کئی سیاست دانوں نے پیش گوئی کی ہے کہ شیر خوار بچوں کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے کیونکہ یہ بچے بڑے ہوکر صہیونی ریاست کے لیے مسائل پیدا کریں گے۔

بھوک سے اموات بھی اسرائیلی نسل کشی کے ’پیکج‘ میں شامل ہے۔ کبھی کبھی تو فضا سے ’امداد کی صورت میں خوراک‘ اور امریکا کے مہیا کردہ بم ایک ساتھ زمین پر گرتے ہیں۔ جو بائیڈن انتظامیہ نے بنیامن نیتن یاہو کو امریکی صدر کے واضح انتباہ کا وسیع معنوں میں مطلب لیا ۔ جیسا کہ نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ امریکا جو نصف صدی سے زائد عرصے سے اسرائیل کی بے جا خوشامد کرتا رہا ہے، اگر ’اسرائیل نے غزہ میں شہریوں اور امدادی کارکنوں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات نہ کیے تو یہ ختم ہوجائے گی‘۔

مزید کون سے اقدامات؟ کیا اسرائیل نے پہلے ہی شہریوں کے تحفظ کے لیے اقدامات نہیں کیے جو ’نسل کش جو‘ بائیڈن اور چند دیگر امریکی صہیونیوں کے علاوہ کسی کو نظر نہیں آئے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ بہت سے امریکی شہری، یہودی اور دیگر مذاہب کے لوگوں نے شاید پہلے زیادہ غوروفکر کیے بغیر ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیا تھا، وہ اب نومبر میں ممکنہ طور پر ایسا نہ کریں۔

کانگریس رکن نینسی پیلوسی کا اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت کو عارضی طور پر روکنے کی درخواست پر دستخط کرنا یا چک شومر کی بنیامن نیتن یاہو کے حریف کی وکالت کرنے سے ڈیموکریٹک حکومت کے طرزِ حکمرانی پر زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی۔ باشعور امریکی شہری، اسرائیل کی امداد اور اس کے استعمال کو دیکھ سکتے ہیں جبکہ اسرائیل کی نسل کش مقاصد کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے وہ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر ان کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر اسرائیل نے ’افسوس‘ کا اظہار کیا کہ اس نے دانستہ طور پر رضاکاروں کو نشانہ نہیں بنایا جبکہ اس نے آئی ڈی ایف کے چند اہلکاروں کو بھی برطرف کیا۔ یہاں تک کہ اس نے بظاہر امداد کی ترسیل کے لیے ایک اور راستہ کھول دیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ امدادی ایجنسیز کو دی گئی اپنی دھمکیوں سے پیچھے ہٹا ہے۔ جیسا کہ الجزیرہ کے کالم نگار اینڈریو مترویکا نے رضاکاروں کے حملے کو انتباہ کے مترادف قرار دیا کہ ’فلسطینیوں کو کھانا نہ کھلائیں، اگر کھلائیں گے تو اس کی سزا موت ہے‘۔

اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی انروا جو فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے امداد کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اس کی سرگرمیاں بھی اسی وجہ سے بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسرائیل کے تقریباً تمام مغربی اتحادیوں نے اس مضحکہ خیز مقصد پر دستخط کیے ہیں۔

6 ماہ تک روزانہ کی بنیاد پر انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم کے دوران امریکا اور اس کے حامیوں نے خود کو صرف کھوکھلی دھمکیوں تک محدود رکھا اور یہ دھمکیاں بھی صرف بنیامن نیتن یاہو کو دی گئیں جوکہ 1948ء کے بعد سے صہیونی ریاست کی تاریخ پر ایک بہت بڑا داغ ہیں۔ کھوکھلی دھمکیوں کے بجائے مغربی ممالک کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے اسرائیل کی خونریزی کو فوری لگام دی جاسکے اور شاید حماس کے ’مظالم‘ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے ان کے عزم کو بھی روکا جاسکے۔

اسرائیل کے مظالم اور فلسطین میں خوراک کی قلت کے درمیان فلسطینیوں نے رمضان کا مبارک مہینہ جبری فاقہ کشی میں گزارا۔ 6 ماہ سے جاری مسلسل خونریزی اور تباہی نے یہ تصور کرنا مشکل بنا دیا ہے کہ مظلوم فلسطینیوں نے عیدالفطر کیسے منائی ہوگی۔

شیکسپیئر کے ڈراما میکبتھ میں مرکزی کردار میکبتھ کی زندگی کے المناک پہلو ہیں، اس نے اپنے شاہی مددگار کو قتل کردیا تھا اور اسے قتل کرنے کی وجوہات میں ایک وجہ بھی تھی کہ وہ مخصوص لفظ کا غلط تلفظ کرتا تھا۔ میکبتھ اپنی بیوی سے شکایت کرتا ہے کہ ’مجھے دعاؤں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اور میری زبان سے آمین نہیں ادا ہوپایا‘، بیوی نے کہا کہ ’اعمال کے بارے میں سوچنا نہیں چاہیے کیونکہ یہ ہمیں پاگل کر دے گا‘۔

روانڈا کی خوفناک نسل کشی کو گزرے 30 سال بیت چکے ہیں، اس کے بعد فلسطینیوں کی ہولناک نسل کشی کے حوالے سے دنیا کے خاموش ردعمل کی وجہ سے اس سال میری زبان سے ’عید مبارک‘ ادا نہیں ہوپایا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ماہر علی

لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: mahir.dawn@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔