نقطہ نظر

ججز بھی بول پڑے!

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز بول چکے ہیں اور اب یہ بال عدالتِ عظمیٰ کے کورٹ میں ہے کہ وہ اپنے ادارے کے تقدس کو کیسے برقرار رکھتی ہے۔

بوسیدگی ہمارے ملکی نظام میں بہت گہرائی تک سرایت کرچکی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ بہادر ججوں نے جو کیا وہ صرف ایک جھلک ہے۔ مبینہ طور پر ہیر پھیر کا یہ کھیل پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ خط میں درج ججز کو ڈرانے دھمکانے کی تفصیلات، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر فردِ جرم عائد کرتی ہیں۔ اس نے ردعمل کے ایک ایسے سلسلے کو جنم دیا ہے جس سے پورے نظام کو خطرات لاحق ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب عدالتی معاملات میں انٹیلی جنس ایجنسیوں پر مداخلت کا الزام سامنے آیا ہو۔ ایک سابق جج نے تو نام تک لیے تھے۔ لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے بھیجے گئے خط میں درج ہراساں کیے جانے کی تفصیلات، پہلے سے غیر مستحکم ملکی صورتحال میں مزید خرابی کی وجہ بن رہی ہیں۔

یہ حیران کُن نہیں کہ قانونی برادری نے یک رکنی کمیشن بنانے کے حکومتی فیصلے کو مسترد کردیا۔ حکومت نے الزامات کی تحقیقات کے لیے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا جوکہ واضح طور پر اسکینڈل کو دبانے کی کوشش تھی۔ اب جب سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی دامن بچا کر کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں تو سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان اس معاملے کا ازخود نوٹس لیں۔ اس معاملے کی سماعت کے لیے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز بول چکے ہیں اور اب یہ بال عدالتِ عظمیٰ کے کورٹ میں ہے کہ وہ اپنے ادارے کے تقدس کو کیسے برقرار رکھتی ہے۔

اس وقت نہ صرف عدلیہ کی آزادی بلکہ پہلے سے متزلزل جمہوری عمل کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہے۔ خط میں بہ ظاہر سیاسی معاملات میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت واضح ہے۔ سیاسی کنٹرول حاصل کرنے کے لیے عدلیہ ہیر پھیر کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا اہم آلہ کار رہی ہے۔

اگرچہ خط میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کے خلاف حالیہ مقدمات میں ایگزیکٹو کی مداخلت کا حوالہ دیا گیا ہے لیکن عدالتی ہیرا پھیری کی زد میں مختلف لوگ آچکے ہیں اور سیاسی صف بندیوں میں تبدیلی کے ساتھ ان میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے۔ 8 فروری کے انتخابات سے قبل عمران خان کو ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں تین مقدمات میں یکے بعد دیگرے سنائی گئیں، یہ سزائیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ یقیناً ان سزاؤں کا اصل مقصد سابق وزیراعظم کو انتخابی عمل سے دور رکھنا تھا۔ ان سزاؤں نے سابق وزیراعظم کو کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل بنا دیا۔

جیسا کہ خط میں درج ہے کہ ایک جج کے زیادہ اسٹریس لے لینے کی وجہ سے ان کا بلڈپریشر ہائی ہوگیا اور انہیں اسپتال داخل ہونا پڑا۔ خط کے مطابق جج کے بہنوئی کو اغوا کیا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا۔ مبینہ طور پر نگرانی کے لیے ججز کے گھروں میں کیمرے نصب کیے گئے۔ یعنی معاملہ اس سے زیادہ خراب نہیں ہوسکتا۔

جب چند سال پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ریڈار پر تھے تب بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ کرپشن چارجز پر جلد از جلد سزائیں دے کر ان کا معاملہ بھی نمٹا دیا گیا۔ منصفانہ ٹرائل کا دکھاوا تک نہیں کیا گیا۔ اب اس کھیل میں صرف کردار تبدیل ہوئے ہیں۔ (کچھ مقدمات میں تو ایک ہی جج نے دونوں سابق وزرائے اعظم کے ٹرائل کی صدارت کی۔) ریٹائرڈ جسٹس شوکت صدیقی نے زور دے کر کہا تھا کہ اس وقت کے آئی ایس آئی چیف نے ان سے رابطہ کیا کہ وہ نواز شریف کو ضمانت نہ دیں۔

ملکی سیاست میں طاقت کا رخ بدلتے ہی یہ پورا کھیل بھی تبدیل ہوگیا۔ یہ دیکھنا دلچسپ تھا کہ کیسے جن عدالتوں نے نواز شریف کو سزا سنائی تھی انہوں نے نواز شریف کی خودساختہ جلاوطنی سے واپسی کے چند ہی ہفتوں بعد، انتخابات کے لیے انہیں اہل قرار دینے کی غرض سے تمام عدالتی فیصلے بدل دیے گئے۔ میوزیکل چیئرز کا یہ کھیل جاری ہے۔ مگر اس نے پورے عدالتی نظام کو مضحکہ خیز بنا دیا ہے۔

ایک جانب جہاں متعدد مقدمات میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت واضح ہے وہیں اس عمل سے عدلیہ کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ عدالتی معاملات میں ہیرپھیر نے عدلیہ کی ساکھ کو داغدار کیا ہے اور کچھ معاملات میں تو چند ججز پر یہ بھی الزام تھا کہ وہ کسی متنازع کھیل کے فریق بن چکے تھے اور انہیں قانون کی خلاف ورزی کرتے دیکھا گیا جس کے باعث وہ ملک میں جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کے لیے آلہ کے طور پر استعمال ہوئے۔

پریشان کُن امر یہ ہے کہ خط میں جن مقدمات کا حوالہ دیا گیا ہے، ان کی شکایات اعلیٰ عدلیہ کو بھی موصول ہوئی تھیں لیکن بہ ظاہر لگتا یہی ہے کہ ان میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ججز کے لیے اس سے زیادہ حوصلہ شکن بات اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی اس طرح پردہ پوشی کی جائے۔

اگرچہ خط سے یہ معاملہ منظرعام پر آگیا ہے لیکن سیاسی الزامات نے اس معاملے کی سنگینی کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ حکمران اتحاد جو ماضی میں کچھ اسی طرح کے الزامات لگاتا نظر آتا تھا اب وہ خود ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے دفاع میں سب سے آگے ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنماؤں کو تو ججز کے ان الزامات کے پیچھے سازش کی بو آرہی ہے اور انہوں نے خط پر دستخط کرنے والے ججز کی دیانت پر سوال بھی اٹھایا ہے۔ الزامات پر تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کی منظوری دیتے ہوئی انہوں نے تنقید کرتے ہوئے خط کو غیرمناسب قرار دیا۔ کچھ وزرا نے خط سامنے آنے کے وقت پر سوال اٹھایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شاید ایسا اپوزیشن کی ایما پر ہوا ہے۔

یہ بدقسمتی ہے کہ حکمران جماعت ایسی سوچ کی عکاسی کررہی ہے جبکہ وہ ماضی میں خود عدالتی معاملات میں مداخلت کا شکار رہ چکے ہیں۔ اس نازک معاملے پر سیاسی تقسیم سے ان لوگوں کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی جو اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے عدالتی عمل میں ہیر پھیر کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

دوسری جانب اس حوالے سے پی ٹی آئی کے کردار سے بھی معاملات سنبھلتے نظر نہیں آرہے۔ جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو یہ اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے کے مطابق کام کرتی تھی اور اس وقت وہ اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنا رہی تھی۔ عدالتی معاملات میں بیرونی مداخلت کو روکنے اور قانون کی حکمرانی کو پامال کرنے میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے کردار پر توجہ دینے کے بجائے کچھ سیاسی جماعتوں رہنما اس معاملے کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

درحقیقت عدالتی معاملات میں مبینہ مداخلت ملک کے طاقت کے نظام میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے کردار کی نشاندہی کرتی ہے۔ جمہوریت کے لیے جگہ تنگ ہوتی جارہی ہے جبکہ یہ مداخلت ہائبرڈ نظامِ حکومت سے بھی بالاتر ہے۔

ملک کا پورا سیاسی منظرنامہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے زیرِ سایہ ہے۔ ملک کی بگڑتی سیاسی تقسیم نے غیرمنتخب قوتوں کو معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کا موقع دیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے ان غیرقانونی اقدامات کو چیلنج کیا ہے، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے لڑنے والوں کو ججز کی حمایت کرنی چاہیے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔