سائفر کیس میں عمران خان، شاہ محمود قریشی کی سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماع کل تک ملتوی کردی ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر و دیگر عدالت میں پیش ہوئے، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی پراسیکیوشن ٹیم میں حامد علی شاہ، ذوالفقار نقوی و دیگر عدالت کے روبرو حاضر ہوئے۔
کمرہ عدالت میں شاہ محمود قریشی کی اہلیہ، بیٹی گوہر بانو اور صاحبزادے زین قرشی بھی موجود ہیں، ان کے علاوہ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر عبد القیوم نیازی، میجر (ر) لطاسب ستی، شاندانہ گلزار خان، سیمی ایزیدی، سیمابیہ طاہر، زرتاج گل، شیخ وقاص، سیف اللہ نیازی سمیت دیگر رہنماؤں کی بڑی تعداد میں کمرہ عدالت موجود ہے۔
سماعت کے آغاز میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں کیس سے متعلق تقریباً تمام تر خرابیاں واضح کرچکا ہوں، اب 2 گواہوں کے بیانات سے شروع کروں گا۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ دستاویزات سے متعلق اہم چیزیں ہیں، اسے بھی دیکھنا ہوگا، عدالت نے سلمان صفدر کو اعظم خان کے 164 کا بیان پڑھنے کی ہدایت کردی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل سلمان صفدر سے مکالمہ کیا کہ آپ اعظم خان کے مکمل بیان کو نہ پڑھیں بس جو مخصوص پیرگراف ہیں وہ پڑھیں۔
’سائفر کی کہانی عدم اعتماد کے بعد شروع ہوئی‘
اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کی کہانی عدم اعتماد کے بعد شروع ہوئی، انہوں نے اعظم خان کا بیان پڑھتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے متعلقہ افسران سے مشاورت کرکے سائفر کو پبلک کرنے کا کہا۔
یہاں چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا اس کا مطلب ہے کہ اعظم خان نے سائفر پڑھا ہوا تھا؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ان چیزوں سے واضح نہیں ہورہا کہ اعظم خان نے سائفر پڑھا تھا۔
سلمان صفدر نے بیان پڑھتے ہوئے بتایا کہ اعظم خان نے وزیر اعظم سے کہا تھا کہ سائفر ڈی کوڈڈ کاپی ہے، بنی گالا میں وزیراعظم کی زیر صدارت سائفر سے متعلق اجلاس ہوا، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ آفیشنل کیبنٹ میٹنگ نہیں تھی؟ وکیل نے بتایا کہ اس حوالے سے ریکارڈ پر کچھ نہیں، سائفر کی ماسٹر کاپی وزارت خارجہ تھی، مگر سائفر کو 27 مارچ کو پبلک کیا گیا، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی اجلاس کے بعد سائفر کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا گیا۔
سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر سے متعلق میٹنگز کے مینٹس نیشنل سیکیورٹی ڈویژن نے بنائے تھے، سائفر کاپی آنے پر بتایا گیا کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہوئی، سائفر سے متعلق اس وقت کے وزیر اعظم نے عوامی اجتماع میں بتایا، مجھے نہیں پتہ کہ اس وقت کے وزیراعظم نے جلسہ میں سائفر لہرایا یا سادہ کاغذ؟
اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک بیان میں کچھ اور ہے اور دوسرے میں کچھ اور؟ انہوں نے وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ نے اعظم خان کو کنفرنٹ کیا تھا کہ اس وقت آپ نے یہ کہا تھا اور اب آپ نے کچھ اور کہا ہے؟ پہلا بیان مختلف ہو اور بعد میں بیان میں تبدیلی آجائیں تو اس پر قانون کیا کہتا ہے؟
وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اعظم خان پر ہم نے نہیں ڈیفنس کونسلز نے جرح کی تھی، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی اجلاس میں جو ہوا وہ بتایا وہ تو ریکارڈ کا حصہ ہے؟ اس نے کچھ چیزیں کہیں ہوگی جو پراسیکیوشن کے خلاف جارہی ہوں گی، انہوں نے وکیل سلمان صفدر سے مکالمہ کیا کہ آپ نے جو چارٹ بنائے ہیں اس کے روشنی میں ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اعظم خان کا 164 کا بیان بادی النظر میں ضابطہ فوجداری164 پر پورا نہیں اتر رہا، آپ کہہ رہے کہ اعظم خان کا بیان ہوسٹائل ہوسکتا ہے، مگر بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کیا گیا، اس کیس میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے جو کہ گھوسٹ نہیں ہے، آپ نے ہمیں جو دستاویزات دیے ہیں اسی سے آپ نے سارا کیس ہمیں سمجھانا ہے، ایف آئی اے کی ایف آئی آر میں اعظم خان نامزد تو نہیں۔
اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے کہا سائفر آیا، پھر ڈیمارش کیا، پھر سائفر کی کاپی گم ہوگئی تو یہ ہوسٹائل کیسے ہوا؟ سلمان صفدر نے بتایا کہ اعظم خان نے یہ نہیں کہا کہ عمران خان نے سائفر کو توڑ مروڑ کر پیش کیا، اعظم خان نے یہ بھی نہیں کہا کہ عمران خان نے اپنی سیاسی مفاد کے لیے سائفر کا استعمال کیا، اعظم خان نے کہا کہ میرے سامنے عمران خان نے ملٹری سیکیورٹی سے کہا کہ سائفر کی کاپی گم ہوئی، اسے ڈھونڈ لیں۔
وکیل نے مزید کہا کہ کیس کا تفتیشی بتارہا ہے کہ میں سائفر کاپی ڈھونڈنے کبھی بنی گالا نہیں گیا، اس قسم کا کیس ہم نے کبھی پریکٹس نہیں کیا جو اس کیس میں پریکٹس کیا گیا، اس کیس میں اسد عمر کی ضمانت کنفرم ہوئی، جبکہ اعظم خان پہلے لاپتا تھے، اعظم خان لاپتا تھے پھر اچانک مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئے، کہا جارہا ہے کہ اعظم خان کیس کے گواہ ہیں انہیں کیسے گرفتار کریں؟ اعظم خان کو 17 ماہ تک نوٹسسز جاری ہوتے رہے کہ آئیں اور شامل تفتیش ہوں، 15 اگست کو سائفر کیس میں مقدمہ درج ہوا اور 16 کو 164 کا بیان ریکارڈ کرایا گیا، اگر 15 کو مقدمہ درج ہوا اور اس کا کوئی کردار نہیں تھا تو ملزم کیوں بنایا گیا؟
وکیل نے بتایا کہ مجسٹریٹ کا بیان ہے کہ میرے سامنے ایک ملزم کو پیش کیا گیا، کونسا ایسا گواہ ہوتا ہے جس کو پابند کیا جاتا ہے؟
’بندہ پہلے ملزم تھا اور پھر گواہ بننے پر ملزم نہیں رہا؟‘
عدالت نے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ بندہ پہلے ملزم تھا اور پھر گواہ بننے پر ملزم نہیں رہا؟ ان دونوں چیزوں کو الگ الگ لے کر بتائیں کہ اس میں فرق کیا ہوگا؟
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ 164 کا بیان دو قسم کا ہوتا ہے یا تو بطور گواہ اور یا بطور ملزم، جب ملزم نے بیان دینا ہو تو پہلے ان کو حلف لینا ہوتا ہے، ہونا یہ چاہیے تھا کہ اعظم خان کے بیان ریکارڈ کرنے پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو نوٹسسز کرتے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ کہہ رہے کہ اعظم خان کے 164 کے بیان کو ٹرائل کورٹ نے نہیں دیکھا ؟ وکیل عمران خان نے بتایا کہ اعظم خان نے عدالت میں اپنے ماضی کے بیان کو نہیں مانا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل کورٹ نے اعظم خان کے 164 کے بیان کو نہیں دیکھا؟ وکیل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے اعظم خان کے بیان کو بالکل بھی نہیں دیکھا، عدالت کو اعظم خان کو ان کے بیان پر کنفرنٹ کرنا چاہیے تھا، ٹرائل کورٹ نے 8 فروری سے پہلے فیصلہ دینا تھا تو بہت چیزوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ پر کہیں ہے کہ اعظم خان کب سے کب تک کہاں تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ نہیں یہ کہیں پر بھی ریکارڈ کا حصہ نہیں تھا،
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اعظم خان کی بازیابی کے لیے یہاں پر رٹ پٹیشن کی درخواست آئی تھی، اعظم خان کی درخواست یہاں آئی تھی اور پھر 20 جولائی 2023 کو واپس لی گئی، چیف جسٹس نے اعظم خان کی بازیابی سے متعلق درخواست اور عدالتی حکم کا حوالہ بھی دیا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان کی واپسی 29 دن بعد ہوئی تھی،کریمنل جسٹس سسٹم میں تو اعظم خان کا اپنے کیس میں بیان ہونا چاہیے تھا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ اگر اسی گواہ پر آپ جرح کرتے تو کیا کرتے ؟ سلمان صفدر نے بتایا کہ اگر میں جرح کرتا تو گواہ سے 5 سوالات پوچھتا، میں پوچھتا کہ وزیر اعظم آفس میں آپ کا کام کیا ہے، سیکیورٹی سمیت دیگر چیزوں کا بھی پوچھتا، یہ پوچھتا کہ کتنے بار آپ شامل تفتیش ہوئے اور کب کیا کیا پوچھا گیا؟ یہ پوچھتا کہ آپ پر کس نے مقدمہ کرایا تھا، آپ کی بازیابی کے لیے کس نے درخواست دائر کی تھی؟
سلمان صفدر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ویسے تو ان کے دونوں بیانات سے بہت ساری چیزیں واضح ہیں تو میں جرح ہی کیوں کرتا، سائفر کیس میں پاکستان کے حالات کیسے خراب ہوئے ایف آئی اے کے ٹیکنیکل تجزیہ کار نے ایک رپورٹ بنائی، اس نے سائفر دیکھے بغیر تجزیہ رپورٹ پیش کردی، اس نے ٹیکنیکل رپورٹ میں بتایا کہ ہمارے ساتھ کچھ ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہوئے۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ٹیکنیکل رپورٹ کس نے بنائی اور وہ عدالت پیش ہوا ؟ وکیل نے جواب دیا کہ انیس الرحمن نے یہ رپورٹ بنائی اور وہ عدالت بھی پیش ہوئے تھے، تفتیشی افسر نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مختلف ممالک سے تعلقات خراب ہوئے۔
وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ ایک ٹیکنیکل تجزیہ کار کو ایف آئی اے نے بلایا اور اس نے ٹائمز آف انڈیا ،سی این این سے ڈیٹا لے کر رپورٹ تیار کی ، عدالت نے دریافت کیا کہ کن ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے یہ لکھا ہوا تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ کچھ عرب ممالک اور اس سے پہلے امریکا اور بھارت کے ساتھ تعلقات خرابی کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس موقع پر عدالت نے وکیل سے دریافت کیا کہ آپ کو اب کتنا وقت لگے گا کیونکہ ہم نے فیصلے کی طرف جانا ہے۔
بعد ازاں بیرسٹر سلمان صفدر نے گواہان پر دلائل مکمل کرلیے ، اور تحریری تفصیل عدالت میں پیش کردی۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے بتایا کہ سائفر کیسے آتا ہے اور کیسے ڈی کوڈ کیا جاتا ہے سب تحریری طور پر عدالت میں جمع کروا دیا ہے، 9 کاپیوں میں سے بانی پی ٹی آئی کے پاس جو کاپی تھی اس کے بعد باقی واپس آئی، چیف جسٹس آف پاکستان کو سائفر کی دو کاپیاں بھیجی گئیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل اس کو لازمی مکمل کرنا ہے۔
’اسلام آباد ہائی کورٹ کو تھریٹ کیا گیا ہے‘
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر پر اپیلوں کی سماعت کےدوران موصول ہونے والے خطوط کا تذکرہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں خط موصول ہوئے ہیں، آج کی سماعت میں تاخیر کی ایک وجہ یہی تھی، بنیادی طور پر ہائی کورٹ کو تھریٹ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 28 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت 2 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا سائفر کو ڈی کوڈ نہیں کیا گیا؟
20 مارچ کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کی خلاف اپیلوں پرچیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟
19 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل جواب طلب کرلیا تھا۔
13 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت اور سزا معطلی کی اپیلوں پر میرٹ پر دلائل سننے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
11 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی کے وکلا سے دلائل طلب کرلیے ۔
26 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں بانی تحریک انصاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کو نوٹس جاری کر دیا۔
16 فروری کو پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے سائفر، توشہ خانہ اور نکاح کیسز میں سنائی گئی سزاؤں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا۔
اس سے قبل سماعت میں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے سزا کے خلاف اپیلوں پر دلائل کا آغاز کردیا جبکہ عدالت نے فریقین کو 11 مارچ مکمل تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کردی تھی۔
واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔
سائفر کیس
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔