پاکستان

جلاؤ گھیراؤ کا مقدمہ: صنم جاوید، عالیہ حمزہ کی ضمانت منظور

انسداد دہشتگردی عدالت کے ڈیوٹی جج ارشد جاوید نے عالیہ حمزہ اور صنم جاوید کی ضمانت منظور کی۔
|

لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے 9 مئی کو تھانہ شادمان کے جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کی کارکن صنم جاوید اور رہنما پی ٹی آئی عالیہ حمزہ کی ضمانت منظور کر لی۔

انسداد دہشتگردی عدالت کے ڈیوٹی جج ارشد جاوید نے درخواست ضمانت پر سماعت کی، صنم جاوید کی جانب سے شکیل پاشا ایڈووکیٹ اور رانا عبد المعروف خان ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ صنم جاوید اور عالیہ حمزہ پر تھانہ شادمان کو نذر آتش کرنے کا الزام ہے، جس مقدمے میں اب گرفتار کیا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔

عدالت نے پی ٹی آئی رہنما عالیہ حمزہ اور صنم جاوید کی ضمانت منظور کر لی۔

واضح رہے کہ 23 مارچ کو عدالت نے تھانہ شادمان کو نذر آتش کرنے کے کیس میں صنم جاوید اور عالیہ حمزہ کی درخواست ضمانت پر 27 مارچ کو حتمی دلائل طلب کر لیے تھے۔

اس سے قبل 8 مارچ کو لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے عدالت نے جناح ہاؤس جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے میں 42 ملزمان کی ضمانتیں منظور کرلی تھیں، اور صنم جاوید، عالیہ حمزہ کی درخواست ضمانت پر پراسیکیوٹر سے دلائل طلب کرلیے تھے۔

ملزمان میں شکیل ،واجد شاہ ،آصف اشرف ،آکاش ،گل بہادر سمیت دیگر افراد شامل ہیں، انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج نوید اقبال نے ملزمان کی درخواست ضمانتیں منظور کیں تھیں، ان ملزمان کے خلاف تھانہ سرور روڑ پولیس نے مقدمہ درج کررکھا ہے۔

پسِ منظر

یاد رہے کہ گزشتہ برس 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا جس کے دوران لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں 9 مئی کو مسلم لیگ (ن) کے دفتر کو جلانے کے علاوہ فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جب کہ اس دوران کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے تھے۔

مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر بھی دھاوا بول دیا تھا جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے اور راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو)کا ایک گیٹ بھی توڑ دیا تھا۔

اس کے بعد ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑائی، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث 1900 افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ عمران خان اور ان کی پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔