نواز شریف کی 2017 میں برطرفی پر تلخیاں تازہ، ملکی ترقی میں رکاوٹ کا سبب قرار دے دیا
وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بننے کے باوجود پارٹی سربراہ نواز شریف نے ایک بار پھر 2017 میں بطور وزیراعظم اپنی برطرفی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نواز شریف نے 2017 میں اپنی برطرفی کو ایک ایسا اقدام قرار دیا جس نے اُن کے بقول نہ صرف ان کی پارٹی کو نقصان پہنچایا بلکہ ملکی ترقی میں بھی رکاوٹ کا سبب بنا۔
3 بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کی پارٹی گزشتہ ماہ ہونے والے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی جس کے بعد سے نواز شریف عوامی نظروں سے اوجھل نظر آرہے ہیں، تاہم انہیں حال ہی میں حکومتِ پنجاب کے اجلاسوں کی صدارت اور بیوروکریٹس اور وزرا کو ہدایات جاری کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
نواز شریف برطانیہ میں 4 سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کرنے کے بعد اکتوبر میں پاکستان واپس آئے تھے، ان کی پارٹی نے بھرپور انتخابی مہم چلائی، جس میں انہیں وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہونے لیے سب سے پسندیدہ امیدوار قرار دیا جاتا رہا۔
تاہم جب ان کی جماعت مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی تو ان کے بھائی شہباز شریف کو 6 جماعتی مخلوط حکومت کا وزیراعظم بنا دیا گیا۔
گزشتہ روز لاہور میں نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے فیصل آباد ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی نے ملاقات کی، اجلاس کے دوران نواز شریف نے کہا کہ اگر میری حکومت کو 2017 میں گھر نہ بھیجا جاتا تو پاکستان بہت تیزی سے ترقی کر چکا ہوتا۔
سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ انہیں ہٹانے اور اقتدار پر قبضہ کرنے والوں نے پاکستان کے ساتھ ظلم کیا۔
انہوں نے کہا کہ سب نے دیکھا کہ غیرقانونی طور پر قبضہ کرنے والوں نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا، آئندہ ایک یا دو سال مشکل ضرور ہوں گے لیکن آسودگی کا وقت ضرور آئے گا، ہم مل کر پاکستان کو اس کے مقام پر واپس لائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کو مشکل وقت سے نکالنے کے لیے سیاست دانوں، انتظامیہ اور پولیس سمیت پورے ملک کو سخت محنت کرنا ہوگی۔
قبل ازیں نواز شریف نے ان سابق جرنیلوں اور ججوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم ظاہر کیا جنہوں نے ان کی حکومت کو ’غیرقانونی‘ طور پر گرایا۔
ان کے قریبی ساتھی اور موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ پارلیمنٹ کو جنرل (ر) باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید اور عمران خان کو طلب کرنا چاہیے اور ان سے 2017 میں نواز شریف کی حکومت گِرا کر ملک کے لیے معاشی مسائل پیدا کرنے میں ان کے مبینہ کردار پر پوچھ گچھ کرنی چاہیے۔
تاہم ’شہباز کیمپ‘ کے حنیف عباسی سمیت مسلم لیگ (ن) کے کچھ اراکین اسمبلی نے خواجہ آصف کو ان کے اِس ’بلاوجہ کے مطالبے‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے فیصل آباد میں ترقیاتی اسکیموں پر تبادلہ خیال کیا، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ورکرز کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے قوانین متعارف کرائے جا رہے ہیں اور اُن پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کیا جائے گا۔
مریم نواز نے کہا کہ فیصل آباد میں میٹرو بسوں کے علاوہ 100 اسپیڈو بسیں بھی لائی جا رہی ہیں، علاوہ ازیں کم آمدنی والے لوگوں کے لیے ایک لاکھ ہاؤسنگ یونٹس کی تعمیر کے منصوبے میں فیصل آباد کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔