بانی وکی لیکس جولین اسانج کی فتح، برطانیہ سے امریکا حوالگی کا معاملہ ٹل گیا
وکی لیکس کے بانی کی برطانیہ سے امریکا حوالگی روکتے ہوئے لندن ہائی کورٹ نے کہا کہ امریکا کو یقین دہانی کرانی ہوگی کہ جولین اسانج کو سزائے موت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی خبر کے مطابق امریکی استغاثہ 52 سالہ جولین اسانج پر 18 الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ سب الزامات جاسوسی ایکٹ کے تحت وکی لیکس میں خفیہ امریکی فوجی ریکارڈز اور سفارتی کیبلز جاری کرنے سے متعلق ہیں۔
جولین اسانج کے وکلا نے فروری میں برطانوی عدالتوں میں 13 سال سے زائد عرصے سے جاری قانونی جنگ کے دوران ان کو بے دخل کرنے کے لیے برطانیہ کی منظوری کو چیلنج کیا تھا۔
اپنے فیصلے میں دو سینئر ججوں نے کہا کہ ان کے پاس اپنی حوالگی کے فیصلے پر اپیل کرنے کے لیے کئی بنیادیں موجود ہیں۔
عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ جولین اسانج غیر امریکی شہری ہونے کے ناطے اظہار رائے کے حق سے متعلق پہلی ترمیم پر انحصار نہیں کرسکتا، اوراس وقت موجودہ الزامات میں سے کسی پر بھی سزائے موت نہیں دی جا سکتی، لیکن بعد میں ان پر سنگین جرم جیسا کہ غداری کےالزامات کے تحت فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کی حوالگی غیر قانونی ہو گی۔
ججوں نے کہا کہ جولین اسانج نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کی طرف اشارہ کیا جس میں 2010 میں وکی لیکس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میرے خیال میں سزائے موت یا کچھ اور ہونا چاہیے۔
سرکردہ سیاست دانوں اور دیگر عوامی شخصیات کی طرف سے سزائے موت کے نفاذ کے مطالبات کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلے میں کہا گیا کہ جولین اسانج کا مقدمہ کم از کم قابل بحث ضرور ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اگر 16 اپریل تک امریکا کی جانب سے یقین دہانی نہیں کرائی جاتی تو جولین اسانج کو اپیل کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
کیس کی مزید سماعت 20 مئی تک ملتوی کردی گئی جس کا مطلب ہے کہ ان کی حوالگی کو جو ان کی قانونی ٹیم کے بقول فیصلے پر منحصر تھی، اسے روک دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 2022 میں برطانوی وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو امریکا کے حوالے سے کرنے کی منظوری دے دی تھی جہاں وہ اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ ان خفیہ دستاویزات کے سامنے آنے سے کئی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوئے۔
ان کی وکیل جین روبن سن نے امریکی صدر جوبائیڈن پر زور دیا تھا کہ جولین اسانج کے خلاف الزامات واپس لیے جائیں اور آسٹریلوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے مؤکل کو رہا کیا جائے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ ’ہم برطانوی عدالت میں اپیل کریں گے اور اگر ضرورت پڑی تو یورپی عدالت برائے انسانی حقوق بھی جائیں گے‘۔
برطانوی وزارت داخلہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’اس کیس میں برطانوی عدالتوں نے یہ نہیں پایا کہ جولین اسانج کی حوالگی جابرانہ، غیر منصفانہ اور استحصالی عمل ہوگا‘۔
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ’نہ ہی یہ معلوم ہوا کہ ان کی حوالگی ان کے انسانی حقوق، منصفانہ ٹرائل یا آزادی اظہارِ رائے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی اور امریکا میں ان کے ساتھ مناسب سلوک کیا جائے گا بشمول ان کی صحت کا خیال رکھنے کے‘۔
وکی لیکس کیا تھا؟
خیال رہے کہ وکی لیکس سب سے پہلے اس وقت منظر عام پر آیا جب اس نے 2010 میں امریکی فوج کی 2007 کی ایک ویڈیو شائع کی تھی جس میں دیکھا گیا تھا کہ بغداد میں اپاچی ہیلی کاپٹروں کے حملے میں رائٹرز کے دو نیوز اسٹاف سمیت ایک درجن افراد ہلاک ہوئے۔
اس کے بعد اس نے سیکڑوں ہزاروں خفیہ فائلیں اور سفارتی کیبلز جاری کیں جو امریکی فوجی تاریخ میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی سیکیورٹی کی خلاف ورزی تھی۔
امریکی پراسیکیوٹرز اور مغربی سیکیورٹی حکام جولین اسانج کو ریاست کا ایک خطرناک دشمن سمجھتے ہیں جن کے لیک کردہ مواد میں نامزد ایجنٹوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی تھیں۔
البتہ جولین اسانج اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں اقتدار میں رہنے والوں کو شرمندہ کرنے کی سزا دی جا رہی ہے اور اگر جرم ثابت ہو گیا تو انہیں 175 سال قید کا سامنا کرنا پڑے گا، حالانکہ امریکی وکلا نے کہا ہے کہ سزا 4 سے 6 سال کے برابر ہو گی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل اگنیس کیلامارڈ نے کہا تھا کہ ’جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کی اجازت دینا اسے بہت زیادہ خطرے میں ڈال دے گا اور دنیا بھر کے صحافیوں کو ایک خطرناک پیغام دے گا۔‘
یہ قانونی جنگ 2010 کے آخر میں شروع ہوئی جب سوئیڈن نے جنسی جرائم کے الزامات پر برطانیہ سے جولین اسانج کی حوالگی کا مطالبہ کیا، جب وہ 2012 میں یہ مقدمہ ہار گئے تو لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے لی جہاں انہوں نے 7 سال گزارے۔
بالآخر اپریل 2019 میں انہیں گھسیٹ کر نکالا گیا تو انہیں برطانوی ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے پر جیل بھیج دیا گیا حالانکہ ان کے خلاف سوئیڈش مقدمہ خارج ہوچکا تھا، وہ جون 2019 سے امریکا کو حوالگی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور اب بھی جیل میں ہیں۔
ایکواڈور کے سفارت خانے میں قیام کے دوران ان کی ساتھی سے 2 بچے پیدا ہوئے جس سے انہوں نے لندن کی بیلمارش ہائی سیکیورٹی جیل میں ایک تقریب میں شادی کی تھی جس میں صرف چار مہمانوں، دو سرکاری گواہوں اور دو محافظوں نے شرکت کی تھی۔