پاکستان

اسلام آباد میں غزہ بچاؤ مارچ، پولیس کی سابق سینیٹر مشتاق احمد کو گرفتار کرنے کی کوشش

پولیس نے مبینہ طور پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر سابق سینیٹر اور جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔
|

اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے غزہ بچاؤ مارچ کے ڈی چوک کی جانب احتجاج پر پولیس نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے احتجاج سے روکنے کی کوشش کی اور مبینہ طور پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر سابق سینیٹر اور جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔

ڈان نیوز کے مطابق پولیس نے اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد کی گاڑی کو سڑک پر روک کر مبینہ طور پر انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی۔

اس موقع پر سینیٹر مشتاق اور پولیس کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی جبکہ پولیس اہلکار ویڈیو بنانے والے سینیٹر مشتاق کے بیٹے پر بھی برس پڑے۔

اس حوالے سے معروف صحافی حامد نے ایکس(سابقہ ٹوئٹر) پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ اسلام آباد پولیس نے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کو غزہ میں اسرائیلی ظلم و ستم کے خلاف مظاہرے سے روکا اور کہا کہ آپ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بعد میں پولیس نے رات کو انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی اور جب لوگوں نے گرفتاری کی وڈیو بنانا شروع کی تو پولیس یہ کہہ کر چلی گئی کہ ہم دوبارہ آئیں گے۔

جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد نے ایکس پر اپنے پیغام میں بتایا کہ دھرنے سے واپسی پر جب میری فیملی، بچے میرے ساتھ تھے تو دو گاڑیوں میں سوار سادہ کپڑوں اور وردی میں ملبوس اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے میری گاڑی کا تعاقب کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان اہلکاروں نے میری گاڑی رکوادی اور مجھے کہا گیا کہ اپنا شناختی کارڈ دکھاؤ، میں نے دکھایا تو پھر دھمکیاں دیں اور غیر مہذب زبان استعمال کی جبکہ میرے ڈرائیور اور بیٹے سے موبائل چھیننے کی بھی کوشش کی۔

ایوان بالا کے سابق رکن نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ میں نے انہیں کہا کہ بدتمیزی نہ کریں، اگر گرفتار کرنا ہے تو کریں میں تیار ہوں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ آج پولیس نے پلاسٹک کے پائپوں سے دھرنے کی لیڈرشپ پر تشدد کیا لیکن میں نے شرکا کو ٹھنڈا کیا اور ہم بدتمیزی اور تشدد کے باوجود پرامن رہے۔

مشتاق احمد خان نے کہا کہ اسلام آباد پولیس اپنی اتھارٹی اور وردی کا غلط استعمال کررہی ہے۔

اس سے قبل دوپہر نے دھرنے کا آغاز ہوا تو پولیس نے دھرنے کے شرکا محاصرہ کرتے ہوئے ساؤنڈ سسٹم کو حراست میں لے لیا اور مبینہ طور پر شرکا کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

جماعت اسلامی نے آج دوپہر 2 بجے سے رات 8 بجے تک اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا لیکن دھرنا شروع ہوتے ہی اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کو گھیرے میں لے کر احتجاج سے روکنے کی کوشش کی۔

اس موقع پر ایکس پر اپنے پیغام میں مشتاق احمد خان نے بتایا تھا کہ یہ دھرنا رات 8 بجے تک جاری رہے گا لیکن پولیس نے ہمیں محاصرے میں لیا ہوا ہے، ہمارے ساؤنڈ سسٹم اور گاڑی کو بھی قبضے میں لے لیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے گاڑی میں سوار کارکنوں کو گرفتار کر لیا اور ہمیں ڈی چوک نہیں جانے دے رہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں، غزہ میں بچ کٹ مررہے ہیں، ملبے کے اوپر روزے افطار کررہے ہیں، 27 بچے بھوک سے مر چکے ہیں لیکن یہ نااہل حکومت ہمیں احتجاج کی اجازت تک نہیں دے رہی، یہ اسرائیل نوازی اور فلسطین دشمنی ہے۔

اپنے پیغام میں انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین اور غزہ کے لیے نکلنے والوں پر اسلام آباد پولیس کا بہیمانہ تشدد افسوسناک اور قابل مذمت ہے لیکن ہم ڈٹے رہیں گے اور فلسطین اور اہلیان غزہ کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیلی دہشت گردی، عالم اسلام اور پاکستان کے حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے۔