’ڈونلڈ لو کے بیان نے امریکی حمایت پر پاکستان کے انحصار کو بے نقاب کردیا‘
چند روز قبل جنوبی ایشیا کے لیے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ ڈونلڈلو نے امریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی میں بیان دیا تھا کہ سائفر سازش سراسر جھوٹ ہے، امریکا کا عمران خان حکومت کے خاتمے میں کوئی کردار نہیں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ لو نے کہا تھا کہ میں اس نکتے پر بہت واضح جواب دینا چاہتا ہوں، یہ الزامات، یہ سازشی تھیوری، جھوٹ ہے، یہ سراسر جھوٹ ہے، میں نے اس حوالے سے پریس رپورٹنگ کا جائزہ لیا ہے جسے پاکستان میں سائفر کہا جاتا ہے جو مبینہ طور پر یہاں کے سفارت خانے سے لیک ہونے والی سفارتی کیبل ہے۔
ڈونلڈ لو کی گواہی والی خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی کی سماعت پر امریکا میں مقیم ماہرین کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا۔
اگرچہ پی ٹی آئی کے حامی ان کے الزامات کو واضح طور پر مسترد کرنے سے ناخوش نظر آئے، تاہم انہوں نے امریکی ایوان کے سامنے ڈونلڈ لو کے بیان میں حکومت کی تبدیلی کے خطرے کی موجودگی کی واضح تصدیق دیکھی ہے۔
تاہم دیگر نے ڈونلڈ لو کے پی ٹی آئی کے سازشی بیانیے کو مسترد کرنے کے بیان پر تبصرہ کیا، اٹلانٹک کونسل سے وابستہ پاکستانی نژاد امریکی اسکالر شجاع نواز نے کہا کہ ڈونلڈ لو کا سازشی نظریہ پاکستانی حکومت کے اعلٰی طبقوں میں ناقص فیصلہ سازی کی عکاس تھا۔
انہوں نے ڈان کو بتایا کہ اس میں ایک امریکی سفارت کار کو نشانہ بنایا گیا جو پاکستان کی ضروریات کا ہمدرد اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے فعال طور پر اقتصادی امداد کی حمایت کرنے کے لیے جانا جاتا تھا.
شجاع نواز نے دلیل دی کہ بدھ کی سماعت نے امریکی حمایت اور تجارتی انحصار پر پاکستان کے انحصار کو بے نقاب کردیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ سماعت آئی ایم ایف کے عملے کے درمیان 1.1 بلین ڈالر کی ممکنہ ریلیز کے معاہدے کے فوراً بعد ہوئی جو کہ پاکستان کی مشکلات کا شکار معیشت کے لیے ایک انتہائی ضروری ریلیف ہے۔
پاکستان میں انتخابی بے ضابطگیوں کے الزامات پر امریکی ردعمل کا تجزیہ کرتے ہوئے شجاع نواز نے نشاندہی کی کہ سماعت میں امریکی قانون ساز بنگلہ دیش اور دیگر ممالک پر ویزا پابندیوں کی تقابلی مثالوں کی پیروی کرنے میں ناکام رہے جہاں امریکا نے انتخابی بے ضابطگیوں کا تعین کیا تھا۔
انہوں نے حکومت پر یہ بھی زور دیا کہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کچھ ایسی نشستوں پر دوبارہ انتخابات کروانے کی اجازت دے جہاں نتائج میں انتہائی خرابی کی نشاندہی کی گئی تھی، شجاع نواز نے خبردار کیا کہ دوسری صورت میں مستقبل میں امریکی پابندیوں کا خطرہ برقرار رہے گا۔
پاکستانی نژاد اٹلانٹک کونسل کے ایک اور اسکالر عزیر یونس نے ریمارکس دیے کہ یہ سماعت ماضی کی کارروائیوں سے ہٹ کر تھی، جو اکثر افغانستان کی جنگ کے حوالے سے پاکستان پر صریحاً تنقید کرتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ واضح تھا کہ کانگریس اور محکمہ خارجہ دونوں ہی پاکستان کے ساتھ ایسے دوطرفہ تعلقات کے خواہشمند ہیں جو میرٹس پر ہوں۔
عزیر یونس نے نوٹ کیا کہ امریکی قانون سازوں نے سماعت کے دوران دیگر اہم مسائل بھی اٹھائے، جیسے کہس ایران سے گیس پائپ لائن کی مجوزہ تعمیر، پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، اور پاکستان کے معاشی بحران میں چینی قرضے کا کردار۔
انہوں نے کہا آخر میں، کانگریس اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ آئین کی روح کے تحت ایک جمہوری پاکستان امریکا کے ساتھ مضبوط تعلقات کے لیے اہم ہے۔
سماعت کے دوران یہ بات واضح ہو گئی کہ امریکی قانون ساز انتخابی دھاندلی سے آگاہ تھے اور اس کا تدارک چاہتے تھے لیکن پاکستان پر ضرورت سے زیادہ دباؤ نہ ڈالنے کے لیے محتاط تھے، کیونکہ انہیں خدشہ تھا پاکستان چین کے ساتھ مزید اتحاد کر سکتا ہے۔
تاہم، واشنگٹن میں ولسن سینٹر کے مائیکل کگلمین نے ڈونلڈ لو کی گواہی پر غیر یقینی کا مظاہرہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی کے حوالے سے ایک زیادہ تفصیلی خیال اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں پاکستان پر توجہ مرکوز کرنے والے سب سے سینئر امریکی اہلکار سے ملتا ہے۔
بصورت دیگر، یہ کانگریس کی ایک معمول کی سماعت تھی جس میں وسیع تر امریکی پالیسی کی بہت کم گنجائش تھی اور اس کے باوجود کمرہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا، جن میں سے کچھ کافی بدتمیز تھے۔
سکھوں کے خلاف سازشیں
ڈونلڈ لو نے پینل کو یہ بھی بتایا کہ امریکا بھارتی حکومت کے ساتھ تعاون کر رہا ہے تاکہ امریکی سرزمین پر سکھ رہنما گروپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کی سازش کرنے میں ملوث لوگوں کا احتساب کیا جا سکے۔
ایک بھارتی شہری، نکھل گپتا، پر گزشتہ سال نومبر میں وفاقی استغاثہ نے گرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کی ناکام سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں فرد جرم عائد کی تھی، جو امریکا اور کینیڈا کی دوہری شہریت رکھتے ہیں۔
ڈونلڈ لو نے کہا کہ یہ امریکا اور بھارت کے درمیان ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم انتظامیہ میں اسے ناقابل یقین حد تک سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ہم نے اسے بھارت کے ساتھ اعلیٰ سطح پر اٹھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی حکام بھارت کے ساتھ مل کر نئی دہلی کو اس خوفناک جرم کے ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ڈونلڈ لو مینیسوٹا سے کانگریس مین ڈین فلپس کے سوال پر کہ کیا روس میں لیکسی ناوالنی کے قتل سے متعلق 500 سے زائد افراد پر لگائی گئی پابندیاں بھارت پر بھی لگائی جا سکتی ہیں؟ کا جواب دیتے ہوئے ڈونلڈ لو نے یہ تفصیلات فراہم کیں۔