’سب جھوٹ بولنے آئے ہیں یا کوئی سچ بھی بولے گا‘، مونال ریسٹورنٹ لیز سے متعلق تمام تفصیلات طلب
سپریم کورٹ نے مونال اور ریماؤنٹ، ویٹرنری اینڈ فارمز ڈائریکٹوریٹ (آر ایف وی ڈی) کے درمیان معاہدہ، اصل دستاویزات، لیز کی مالیت، اکاؤنٹ میں جمع رقم سمیت نیشنل پارک میں موجود دیگر ریسٹورنٹس کی تفصیلات طلب کر لیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مونال ریسٹورنٹ کی لیز سے متعلق کیس کی سماعت کی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، وکیل مخدوم علی، وکیل سلمان اکرم راجا عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ عدالت کا آخری آرڈر کیا تھا پڑھیں، اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھ کرسنایا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا ملٹری اسٹیٹ ڈائریکٹریٹ کی طرف سے کون آیا ہے؟ ملٹری اسٹیٹ افسر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ مونال کے ساتھ ملٹری اسٹیٹ ڈائریکٹریٹ کا اوریجنل ایگریمنٹ ریکارڈ کہاں ہے؟۔
چیف جسٹس نے کہا سارے لوگ جھوٹ بولنے کے لیے آئے ہیں یا کوئی سچ بھی بولے گا، ریکارڈ فوراً وقفے میں پیش کریں ورنہ توہین عدالت کا نوٹس کریں گے۔
سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے کہا عدالت مہلت دے ایگریمنٹ کی کاپی پیش کردی جائے گی، سپریم کورٹ فیصلے میں ملکیت کا ذکر تھا وہی ریکارڈ منگوایا، یکم اپریل 1910 کو 8683 ایکڑ آر ایف وی ڈی کو دی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا یکم اپریل کا نوٹیفیکیشن کہاں ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا یہ نوٹیفیکیشن ابھی پاس نہیں، چیف جسٹس نے کہا ہر چیز اسی نوٹی فکیشن سے شروع اور ختم ہوگی، اگر نوٹیفیکیشن ہی نہیں تو پھر آپ کا کیس ختم۔
اٹارنی جنرل بولے میں نوٹی فکیشن کی تفصیل ایسے بتا دیتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا ہم ایسی باتوں پر نہیں جاتے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا نینشل پارک اراضی ملکیت کس کی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ اراضی وفاقی حکومت کی ملکیت ہے، چیف جسٹس نے کہا ریماؤنٹ، ویٹرنری اینڈ فارمز ڈائریکٹوریٹ (آر ایف وی ڈی) لیز معاہدہ ہونے پر چیک کس کو دیا گیا ؟ نمائندہ آر وی ایف ڈی نے بتایا چیک آر ایف وی ڈی کے اکاؤنٹ کے نام کا دیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے بتایا آر وی ایف ڈی لیز ایگریمنٹ نہیں کرسکتی تھی، چیف جسٹس نے استفسار کیا اچھا یا برا معاہدہ چھوڑیں آر وی ایف ڈی پیسے کیسے لے سکتی ہے ؟ وکیل مونال نے بتایا آر وی ایف ڈی نے مونال سے معاہدے کے لیے خط لکھا، آر وی ایف ڈی کے خط پر سی ڈی اے کو 8 خطوط لکھے کوئی جواب نہیں آیا۔
چیف جسٹس بولے اب آرمی نے ڈائریکٹوریٹ بنا لیا ہے، کیا غیر قانونی ادارہ ایسا کوئی معاہدہ کرسکتا تھا، اٹارنی جنرل بولے مونال سے معاہدہ کرنا درست نہیں تھا۔
عدالت نے مونال اور آر وی ایف ڈائریکٹوریٹ کے درمیان معاہدہ اور اصل دستاویزات ایک ہفتے میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے نیشنل پارک میں مونال ریسٹورنٹ کے ساتھ ساتھ دیگر ریسٹورنٹس کی تفصیلات طلب کر لیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ نیشنل پارک ایریا میں قائم تمام ریسٹورنٹس کی مکمل تفصیلات ایک ماہ میں فراہم کی جائے، سپریم کورٹ آفس تفصیلات آنے کے بعد ریسٹورنٹس کو نوٹس جاری کرے۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ عدالت کے علم میں لایا گیا ہے کہ نیشنل پارک کی حد بندی ہو رہی ہے، حد بندی کا عمل مکمل ہونے کے بعد سی ڈی اے تفصیلات جمع کرائے۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ نیشنل پارک آرڈیننس کو عوام کی تعلیم اور ریسرچ کیلئے دستیاب ہونا چاہیے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔
مونال ریسٹورنٹ سے متعلق گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے مونال گروپ آف کمپنیز کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا تھا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کو فوج کے گراس فارم میں کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مونال گروپ کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے 11 جنوری 2022 کو دیے گئے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی، اس فیصلے میں عدالت نے حکومت کو مارگلہ کی خوبصورت پہاڑیوں پر واقع مونال ریسٹورنٹ کو سیل کر کے اسے قبضے میں لینے کا حکم دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے انتظامیہ کو مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں 8 ہزار 600 ایکڑ زمین کے حقیقی مالک کے نشاندہی کرنے والے بیان کو جمع کروانے کا بھی حکم دیا تھا۔