نقطہ نظر

آئی ایم ایف کے چنگل سے کیسے نکلا جاسکتا ہے؟

کیا یہ واقعی آئی ایم ایف کا کام ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ حکومت کس چیز پر کتنی سبسڈی دے؟ گیس اور بجلی کس نرخ پر فروخت کیے جائیں؟ شرح سود کم کرے یا زیادہ؟

عالمی کساد بازاری 1936ء اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے حل کے لیے 1944ء میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس کے قیام کے بنیادی مقاصد میں جن باتوں کو مدنظر رکھا گیا تھا ان میں عالمی مالیاتی نظام کا قیام و تحفظ، بین الاقوامی تجارت کا فروغ اور اس کے ذریعے ممالک کی آمدنی اور روزگار میں اضافہ کرنا، تبادلے کی شرح کو مستحکم رکھنا اور ممبر ممالک کو بین الاقوامی ادائیگیوں کے خسارے کی صورت میں قرضے کی فراہمی شامل ہیں۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے آئی ایم ایف قرض دینے کے ساتھ اپنی شرائط بھی لاگو کرتا ہے اور وقتاً فوقتاً اپنی جائزہ رپورٹ شائع کرتا ہے جس میں ممالک کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور دنیا بھر کی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیز ان رپورٹس کا استعمال کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ دیگر بین الاقوامی ادارے اور ممالک بھی آئی ایم ایف کی جائزہ رپورٹ کی بنیاد پر قرضے فراہم کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ رپورٹ کسی بھی ملک کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔

تاہم ان جائزہ رپورٹس میں کامیابی یا ناکامی کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ کوئی بھی ملک آئی ایم ایف کے مقرر کردہ اہداف وشرائط کے حصول میں کس حد تک کامیاب رہا ہے۔


آئی ایم ایف کی شرائط


پاکستان اور آئی ایم ایف کا تعلق بہت پرانا ہے ہم نے 1958ء میں پہلی بار آئی ایم ایف سے قرضہ لیا تھا اور اس کے بعد اب تک 22 مرتبہ ہم مختلف معاہدوں کے تحت قرضے حاصل کرچکے ہیں۔ موجودہ پروگرام کا آغاز 2019ء میں ہوا تھا لیکن یہ معاہدہ مکمل نہیں ہوپایا تھا اور اس کی آخری دو اقساط کے لیے ملک کو طویل صبر آزما انتظار کرنا پڑا۔ اس کے بعد گزشتہ سال جولائی میں آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالرز کے حصول کے لیے 9 ماہی مدت کا اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کیا۔

2019ء کے پروگرام میں پاکستان کو جن باتوں کا پابند کیا گیا تھا ان میں مالیاتی خسارے کو کم کرنا، شرح سود میں اضافہ کرنا یعنی سخت مالیاتی پالیسیوں کا اطلاق، سبسڈی کا خاتمہ بالخصوص بجلی اور گیس کی مد میں دی جانے والی سبسڈی کو ختم کرنا، اسٹیٹ بینک کی خودمختاری (جس کے تحت مرکزی بینک حکومت کو قرضہ دینے یا مخصوص شکل میں دینے کا پابند ہوگا)، بجلی اور گیس کے نرخوں کو بڑھا کر پیداواری لاگت تک لانا، ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنا، ڈالر کی قیمت کا تعین مارکیٹ میں طلب ورسد کی بنیاد پر کیا جانا وغیرہ شامل ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ شرائط ہمارے لیے کوئی نئی نہیں ہیں۔ یہ تمام شرائط 2008ء اور 2013ء کے معاہدوں میں بھی موجود تھیں۔ تاہم 2019ء کے معاہدے سے پہلے کبھی آئی ایم ایف کی شرائط پر مکمل طور پر عمل در آمد نہیں کیا گیا اور حکومتوں نے عموماً ایسی تمام شرائط جو ملکی خود مختاری اور عوام کی فلاح و بہبود کو براہ راست متاثر کرتی ہیں، ان پر عمل درآمد سے گریز کیا۔ لیکن موجودہ پروگرام کی خاص بات یہ ہے کہ اس بار خراب معاشی صورتحال، دوست ممالک کے سرد رویے اور عالمی ادارے کی بے لچک شرائط کے باعث حکومت انہیں پورا کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔

سابقہ معاہدے میں اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دی جا چکی ہے، ڈالر پر سے کنٹرول ختم کیا جا چکا ہے، بجلی اور گیس کی قیمتیں بتدریج بڑھائی جا رہی ہیں، حکومت اپنے اخراجات کے لیے اسٹیٹ بینک کے بجائے کمرشل بینکوں سے ادھار لے رہی ہے۔


کیا بجلی، گیس کے نرخ طے کرنا آئی ایم ایف کا کام ہے؟


آئی ایم ایف نے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی پہلی جائزہ رپورٹ جنوری 2024ء میں پیش کی تھی اس میں حکومت پاکستان کی کارکردگی کو واضح طور پر سراہتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ ان پالیسیوں کا تسلسل ہی ترقی کی ضمانت ہے۔

ان اقدامات کے اثرات کو سمجھنے کے لیے اگر 2008ء سے 2013ء تک کے معاشی اشاریوں کا موازنہ موجودہ پروگرام 2019ء کی معاشی صورتحال سے کیا جائے تو 2008ء میں افراط زر17 فیصد اور جی ڈی پی کی حقیقی شرح نمو 11 فیصد تھی اس مدت کے دوران یہ بتدریج کم ہوتے ہوتے 2016-2015ء میں محض 2 فیصد تک رہ گئی۔ حقیقی شرح نمو 2018-2017ء میں 6.1 فیصد تک ریکارڈ کی گئی۔ جبکہ تجارتی خسارہ 17.13 سے لے کر 31 ارب ڈالرز تک رہا۔

موجودہ پروگرام میں 2019ء سے 2023ء تک کے معاشی اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ اس مدت میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں تقریباً 48 فیصد کا تاریخی اضافہ ہوا۔ روپے کی قدر ریکارڈ گراوٹ کا شکار رہی، شرح نمو منفی 0.9 رہی جبکہ تجارتی خسارہ سال 2021-22ء میں 48.3 ارب ڈالرز کی سطح تک چلا گیا تھا۔ تاہم آئی ایم ایف کی رپورٹ مالی سال 2024ء کے اختتام تک بہتری کی نوید سناتی ہے۔

رپورٹ میں جن خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں ایک اہم چیلنج بیرونی قرضوں کی ادائیگی ہے جوکہ چیلنج سے بڑھ کر ایک معمہ ہے کہ انہیں ادا کرنے کے لیے ڈالرز کہاں سے آئیں گے؟ کاروبار بھی بلند شرح سود اور مہنگی بجلی وگیس کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار ہیں۔

دوسری طرف اگرچہ آئی ایم ایف کی رپورٹ پاکستانیوں کو آئندہ آنے والے سالوں میں مہنگائی میں کمی کی خوشخبری سناتی ہے لیکن ایک عام شہری جو پہلے ہی بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہونے والے حالیہ اضافے کی وجہ سے پریشان ہے، آئی ایم ایف کی شرائط کو پڑھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ بات یہاں ختم نہیں ہوئی ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ متوقع ہے جس سے نہ صرف گھریلو صارفین کے بجٹ کا بڑا حصہ بلوں کی ادائیگی میں خرچ ہوگا بلکہ یہ پیداواری لاگت میں بھی اضافے کا باعث بنے گا جس سے مزید مہنگائی ہوگی۔

کیا یہ واقعی آئی ایم ایف کا کام ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ حکومت کس چیز پر کتنی سبسڈی دے؟ گیس اور بجلی کس نرخ پر فروخت کیے جائیں؟ مرکزی بینک حکومت کو قرض دے یا نہ دے؟ شرح سود کم کرے یا زیادہ؟


’ادائیگی کے لیے لیا گیا قرضہ خود ایک بڑا خطرہ بن گیا‘


عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط کی مثال کچھ اس طرح سے ہے کہ جیسے کوئی ڈاکٹر ہر مریض کا علاج پیناڈول سے کرنے کی کوشش کرتا ہو۔ اسی طرح آئی ایم ایف بھی ہر ملک سے معاشی اصلاحات کے نام پر اسی طرح کے مطالبات کرتا نظر آتا ہے۔ مثلاً ارجنٹائن اور مصر جو پاکستان کی طرح متعدد بار آئی ایم ایف سے قرضے لے چکے ہیں، ان سے بھی آئی ایم ایف کے یہی مطالبات رہے ہیں۔ پاکستان کی طرح ان ممالک نے بھی عالمی مالیاتی ادارے کی اصلاحات کو اپنایا اور ان کے نتائج بھی پاکستان سے مختلف نہیں ہیں اور دونوں ملک معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔

17نومبر 2022ء میں مصر کے حوالے سے عرب سینٹر واشنگٹن کی شائع کردہ رپورٹ میں آئی ایم ایف معاہدوں کی مصری معیشت پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ اس رپورٹ میں مصنف لکھتا ہے کہ آئی ایم ایف سے کیا جانے والا نیا معاہدہ ملک کے معاشی مسائل کو حل نہیں کرے گا بلکہ یہ انہیں مزید بڑھا دے گا۔

مشہور نوبل انعام یافتہ اکنامسٹ جوزف اسٹگلٹس جوکہ عالمی بینک کے سینیئر وائس صدر بھی تھے، یکم فروری 2022ء فارن پالیسی نامی امریکی جریدے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ارجنٹائن نے اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے قرضہ لیا اور پھر آئی ایم ایف کے قرضے کی ادائیگی بذات خود ایک بڑا خطرہ بن گیا‘۔

مزید لکھتے ہیں کہ اقتصادیات کا بنیادی علم رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ کفایت شعاری (Austerity) معاشی سکڑاؤ (Contraction) کا باعث بنتی ہے لیکن یہاں ایک سوچ یہ ہے کہ یہ کفایت شعاری معاشی پھیلاؤ (Expansion) کا باعث بنے گی جبکہ ایسا نہیں ہوا اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔

بالکل یہی سبق آج کل پاکستانی حکومت کو بھی پڑھایا جا رہا ہے کہ کفایت شعاری کی پالیسی اپنانی ضروری ہے۔ کفایت شعاری کی تائید کی جاسکتی ہے لیکن اس کے دائرے میں غیرترقیاتی اخراجات، اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات اور بےجا حکومتی اخراجات کو لانا چاہیے نہ کہ کفایت شعاری کے نام پر پِسے ہوئے عوام کو مہنگائی میں اضافہ کرکے مزید مشکل میں ڈال دیا جائے۔


آئی ایم ایف کی حالیہ جائزہ رپورٹ


حالیہ جائزہ رپورٹ کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے تمام اداروں کی باگ ڈور گویا اب آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہے اور یہ ایک بین الاقوامی ادارے کے بجائے اکنامک منیجمنٹ کمپنی کے طور پر ملک کی معیشت کو چلا رہا ہے جس کا کام اسٹیٹ اون انٹرپرائزز کو چلانا، ملازمین کی تنخواہوں کا تعین کرنا، ٹیکس کی شرح کا تعین کرنا، تعلیم اور صحت پر ہونے والے خرچ کا تعین، غریبوں کی سپورٹ کے لیے چلائے جانے والے بےنظیر انکم سپورٹ اور کفالت پروگرام کو مانیٹر کرنا وغیرہ ہے۔

یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستانی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے اور ہمارا ادھار واپس مل جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنے سے یا قومی اداروں کو بہتر چلانے سے حکومت اپنی آمدنی میں تو اضافہ کرسکتی ہے جو کہ ملکی کرنسی روپیہ کی شکل میں ہوگا لیکن قرض کی ادائیگی کے لیے حکومت کو ڈالر چاہئیں، وہ کہاں سے آئیں گے؟

یعنی یہ ایک قرضوں کا جال ہے جس میں پرانے قرضے کی ادائیگی کے لیے نیا قرضہ لینا پڑے گا۔ اور لگتا یہ ہے کہ اس اکنامک منیجمنٹ کمپنی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ کہیں کوئی ایسی پالیسی نہ بن پائے جو اس ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد کروادے۔


آئی ایم ایف کے چنگل سے کیسے نکلا جاسکتا ہے؟


بنیادی طور پر کوئی بھی ملک آئی ایم ایف کے پاس اپنے مالی خسارے کو پورا کرنے کے لیے یا حکومتی اخراجات کے لیے نہیں جاتا بلکہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کسی ملک کے پاس بیرونی ادائیگی کے لیے زرمبادلہ یعنی آسان الفاظ میں ڈالر نہ ہوں اور اس کو کسی دوسرے ملک سے قرضہ نہیں مل سکتا ہو۔ قرضے اور امداد کے بغیر، ڈالر کے حصول کا واحد ذریعہ برآمدات ہیں جبکہ پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ حکومت برآمدات کے فروغ کی پالیسی پر کام کررہی ہے لیکن اس کے باوجود ڈالر کی طلب و رسد کا فرق بڑھتا جارہا ہے۔ ہماری برآمدات کی شرحِ نمو کم ہیں جبکہ درآمدات کی شرح زیادہ ہے جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا شکار رہتا ہے۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ حکومت درآمدات کے فروغ کے ساتھ ساتھ درآمدات کی متبادل پالیسی پر توجہ دے۔ صنعتوں میں برآمد شدہ خام مال کے استعمال کو کم کیا جائے، سستی بجلی و گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، سیاسی استحکام پیدا کیا جائے، حکومتی سطح پر درآمد شدہ اشیا کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے، مالی اور مالیاتی پالیسی آئی ایم ایف کی مرضی کے بجائے آزادانہ طور پر ملکی معاشی حالات کے مطابق بنائی جائیں۔ یہ اور اس طرح کے کچھ اور سخت اقدامات کرکے ہی ہم اپنے ملک اور عوام کو خوشحال بنا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر عماد علی

ڈاکٹر عماد علی اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر، یونیورسٹی آف کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے فرائض انجام دیتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔