سپریم کورٹ کے سابق جج مظاہر علی نقوی کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری
وزارت قانون و انصاف نے سپریم کورٹ کے سابق جج مظاہر علی اکبر نقوی کی برطرفی کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا۔
وزارت خزانہ سے جاری نیوٹیفکیشن کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر آئین پاکستان کے آرٹیکل 209(6) اور 48(1) کے ساتھ ساتھ رولز آف بزنس 1973 کے شیڈول 5(بی) کے تحت صدر مملکت نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ کے سابق جج مظاہر علی اکبر نقوی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے جس کا اطلاق 10 جنوری 2024 سے ہو گا۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس کی جانب سے ریفرنس بھیجے جانے اور اس کا جواب دیے جانے کے بعد ایک طویل کارروائی کے بعد سابق جج مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
انہوں کہا تھا ’میرے لیے ان حالات میں بطور جج کام جاری رکھنا ممکن نہیں ہے‘ لیکن ان کے مستعفی ہونے کے باوجود ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
پسِ منظر
خیال رہے کہ 27 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی سپریم جوڈیشل کونسل نے اکثریتی بنیاد پر سپریم کورٹ کے اس کے وقت کے جج مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کی شکایت پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور 14 روز میں جواب طلب کرلیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر شامل ہیں۔
اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف 10 شکایتیں جمع کرادی گئی تھیں اور کونسل نے دو کے مقابلے میں 3 کی اکثریتی رائے سے شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر 14 روز میں انہیں جواب دینے کا کہا گیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے ججوں نے کہا کہ انہیں سابق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایتوں کا جائزہ لینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
11 نومبر کو جمع کرائے گئے ابتدائی جواب میں سابق جسٹس مظاہر نقوی نے جانبدارانہ اور متعصب رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود اور چیف جسٹس نعیم اختر کو خود کو بینچ سے الگ کر کے معاملے کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔
20 نومبر کو سابق جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کردہ شوکاز نوٹس کو بھی چیلنج کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کارروائی کا آغاز غیرعدالتی اور کسی قانونی اختیار کے بغیر تھا۔
اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق جسٹس مظاہر کو ایک نیا شوکاز نوٹس جاری کر کے پندرہ دن کے اندر جواب داخل اور اپنا دفاع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
4 دسمبر کو سابق جسٹس مظاہر نے ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور پہلے سے دائر آئینی پٹیشن کی پیروی کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ نظرثانی شدہ شوکاز نوٹس کو رد کرنے کی کوشش کی تھی۔
6 دسمبر کو انہوں نے سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، 2023 میں درج مقررہ وقت گزر جانے کے باوجود شوکاز نوٹس کے اجرا کو چیلنج کرنے والی اپنی درخواستوں پر خاموشی اختیار کرنے کی جانب تین سینئر ترین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی کمیٹی کی توجہ مبذول کرائی تھی۔
13 دسمبر کو سابق جج سید مظاہر علی اکبر نقوی نے چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دیگر تمام ججوں کے نام ایک کھلے خط میں کہا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے مجھ سے روا رکھا گیا سلوک توہین آمیز ہے۔
یاد رہے کہ 2020 میں سپریم کورٹ کے جج بننے والے سابق جج مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک مبینہ آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں پاکستان بار کونسل سمیت دیگر کی جانب سے مس کنڈکٹ کے الزام پر متعدد شکایتی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
مسلم لیگ (ن) لائرز فورم پنجاب کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر ججوں کے ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔
اسی طرح سے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل میاں داؤد نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جج نے اپنے بیٹوں اور بیٹی کی بیرون ملک تعلیم اور ایک تاجر زاہد رفیق سے ’مالی فائدہ‘ حاصل کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا، ’جج، پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلے عام ظاہر کرتے ہیں‘، وہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف خطرناک ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔
اس کے بعد قومی اسمبلی نے آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے جسٹس مظاہر علی نقوی کا کیس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں شکایات جمع ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل کے اس وقت کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے جسٹس سردار طارق مسعود سے رائے طلب کی تھی۔
سابق جج مظاہر علی نقوی نے اس سے قبل سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی مہم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ میرے خلاف فضول اور غیر سنجیدہ شکایات درج کی گئی ہیں جو عدلیہ کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم کا حصہ ہیں۔
سپریم کورٹ کے جج نے لکھا تھا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ جائیداد ریونیو ریکارڈ اور انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی گئی قیمت کے مقابلے میں قیمت سے زیادہ ہے۔
سابق جج مظاہر علی نقوی نے کہا تھا کہ دنیا کی عدالتیں صدیوں سے اس بنیادی اصول پر کام کر رہی ہیں کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مجھے میرے معاملے میں ایسا نظر نہیں آتا۔
رواں سال 10 جنوری کو سابق جج مظاہر علی نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے اپنے عہدے سے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا کہ ’میرے لیے ان حالات میں بطور جج کام جاری رکھنا ممکن نہیں ہے‘۔
صدر مملکت کو ارسال کردہ خط میںانہوں نے کہا تھا کہ عوامی معلومات اور کسی حد تک عوامی ریکارڈ کا معاملہ ہونے کی وجہ سے ایسے حالات میں میرے لیے اب سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر خدمات جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں آج سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے عہدے سے مستعفی ہو رہا ہوں اور اپنے اوپر عائد کردہ الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔
تاہم ان کے مستعفی ہونے کے باوجود چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان کے خلاف کارروائی کا عندیا دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی جج پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر کے استعفیٰ دے جائے اور ہم کوئی کارروائی نہ کریں۔
7مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل نے مستعفی جج مظاہر علی نقوی کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دے دیتے ہوئے انہیں برطرف کرنے کی سفارش کی تھی جس کے بعد صدر مملکت نے انہیں ان کے عہدے برطرف کردیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے مستعفی جج مظاہر علی نقوی کے خلاف ریفرنس پر 33 صفحات پر مشتمل اپنے تفصیلی فیصلے میں نتیجہ اخذ کیا تھا کہ سید مظاہر علی نقوی مس کنڈکٹ کے مرتکب قرار پائے گئے ہیں، انہیں جج کے عہدے سے ہٹا دیا جانا چاہیے تھا اور ان کے نام کے ساتھ اعزازی جسٹس یا جج کا لفظ استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔