سائفر کیس میں عمران خان، شاہ محمود کی سزا کیخلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل سے جواب طلب
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل جواب طلب کرلیا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اپیلوں پر سماعت کی، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے وکلا سلمان صفدر، سکندر ذولقرنین و دیگر جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی پراسیکیوشن ٹیم میں اسپیشل پراسیکیوٹرز حامد علی شاہ اور ذوالفقار نقوی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
اس کے علاوہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خاندانی افراد، منتخب نمائندے، سینیٹرز اور وکلا کی بڑی تعداد بھی کمرہ عدالت میں موجود ہے۔
سماعت میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ روز عدالت کو ایف آئی آر، چالان اور ٹرائل کورٹ کے کارروائی سے متعلق آگاہ کردیا تھا، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دستاویزات میں سے چیزیں کاٹ کر دوبارہ لگائی گئی ہوں، 12 اکتوبر 2022 کی شکایت ہے جبکہ وصولی 13 اکتوبر کی ہے، ایف آئی اے کے سامنے شکایت کنندہ سیکریٹری داخلہ نسیم کھوکھر ہیں، وفاقی حکومت کی منظوری سے سیکریٹری داخلہ نے شکایت درج کرائی تھی۔
بعد ازاں بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے وفاقی حکومت کا سائفر سے متعلق پہلا نوٹیفکیشن عدالت کو پڑھ کر سنایا، ان کا کہنا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اس کیس میں لیگل شکایت گزار ہیں، جو اصل شکایت کنندہ ہے انہوں نے تو بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کا نام تک نہیں لیا۔
اس پر عدالت نے دریافت کیا کہ ایف آئی اے اور پولیس کا تفتیش سے متعلق عمل تقریبا ایک جیسا ہے؟ ایف آئی اے کے پاس پہلے شکایت آتی ہے، پھر تحقیقات اور پھر ایف آئی آر ہوتی ہے ناں؟ اگر ایک بار ایف آئی آر ہو جائے تو کیا ایف آئی آر سے بھی آگے جانا ہوگا؟ اگر ایف آئی اے کا میکنزم مختلف ہے تو ہمیں وہ دیکھنا ہوگا۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں یہ پتا کرنا ہے کہ ایف آئی اے کے اندرونی قانون و ضوابط کیا ہیں؟ وکیل درخواستگزار نے بتایا کہ سائفر کیس میں مقدمے کا اندراج ہی غلط ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں قانون سے بتائیں کہ رولز کی خلاف ورزی کہاں کی گئی ہے؟
اس موقع جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ ہم اپیل سن رہے ہیں اور آپ اس مراحل میں انکوائری کی اسٹیج پر کیوں جارہے ہیں؟ کا وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ میں آج مقدمہ کے مدعی اور شکایت سے متعلق دلائل سے شروع کروں گا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وکیل نے کہا کہ اُس وقت کے سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر نے مقدمہ درج کروایا تھا، سیکریٹری داخلہ نے وفاقی حکومت کی منظوری سے مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی، سیکریٹری داخلہ نے جو شکایت درج کرائی اس میں بانی پی ٹی آئی یا شاہ محمود قریشی کا نام نہیں تھا، 5 اکتوبر 2022 کو کس نے انکوائری شروع کی اس حوالے سے کوئی دستاویز عدالتی ریکارڈ پر نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ دستاویز ریکارڈ پر نہ ہوں تو کیس کی بنیاد ہی نہیں اور کیس ختم ہو جائے گا، تفتیشی افسر نے اپنے بیان میں کہا کہ 5 اکتوبر کو انکوائری ڈی جی ایف آئی اے کی ہدایت پر شروع کی، ڈی جی ایف آئی اے اس کیس میں گواہ نہیں نہ بیان قلمبند کیا گیا، سلم
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسارکیا کہ کیا وزارت داخلہ نے ڈی جی ایف آئی اے کو انکوائری کا کہا تھا ؟ آپ ہی کہہ رہے ہیں انکوائری شکایت دائر ہونے سے پہلے شروع ہوئی۔
وکیل نے جواب دیا کہ بالکل اسی طرح ہی ہوا ہے، اس طرح تو پورا سپر اسٹرکچر ہی منہدم ہو جائے گا۔
’ اس کیس میں نئی عدالتی نظیر تیار ہو گی’
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہارڈ کور کرمنل کیس نہیں، وائٹ کالر کرائم بھی نہیں، اپنی نوعیت کا الگ کیس ہے، یہ ہائبرڈ قسم کا کیس ہے اور اس میں نئی عدالتی نظیر تیار ہو گی۔
وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ جتنے بھی کیسز بانی پی ٹی آئی کے خلاف آئے ہیں وہ آؤٹ آف دا باکس ہی رہے ہیں، توشہ خانہ ، سائفر ، عدت میں نکاح کیس کا فیصلہ بھی اسی طرح ہی آیا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہ وائٹ کالر کیس بھی نہیں نا ہی قتل کیس کی طرح کہہ سکتے ہیں، یہ مکس ہائبرڈ کیس ہے، وکیل سلامن صفدر نے بتایا کہ یہ ریاست کے خلاف جرم کا کیس ہے ، یہ آخری بات ہو گی کہ میں کہوں کہ ٹرائل جج کو ایک اور موقع دے دیں، میں میرٹ پر دلائل دوں گا۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ حق جرح ختم ہو جائے تو آپ کی حق تلفی ہوتی ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ ملزم عدالت کی نظر میں پسندیدہ بچہ ہوتا ہے۔
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ شام کے ٹرائل کی کیا حیثیت ہو گی ؟ اس حوالے سے بھی پوچھیں گے، کیا بے چینی تھی کہ رات کے 9 بجے بھی ٹرائل ہو رہا تھا؟
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ کیا یہ دونوں سرکاری وکیل عدالت نے تعینات کیے تھے؟کیا ایڈووکیٹ جنرل نے نام بھیجے تھے ؟ وکیل نے بتایا کہ جی ایڈووکیٹ جنرل نے یہ تعینات کیے تھے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ پھر تو ہمیں ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس کرکے سننا پڑے گا ، ان سرکاری وکلا کی اسٹینڈنگ کیا تھی ؟
وکیل نے بتایا کہ جنوری میں چار گواہوں پر شام تک جرح ہوئی، 25 جنوری کو بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے بیماری کی وجہ سے التوا کی درخواست دی، علی بخاری شاہ محمود قریشی کے وکیل تھے الیکشن لڑ رہے تھے 15 دن بعد الیکشن ہو رہے تھے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا جلدی تھی ؟ اس پر وکیل نے کہا کہشاید یہ کوئی ڈیڈ لائن کو پہنچنا چاہ رہے تھے، کھانے کے بغیر سخت سردی میں ہم جیل ٹرائل کے دوران موجود تھے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ ایسا کیوں ؟ سلمان سفدر نے بتایا کہ ہمارے پاس تو کوئی جواب نہیں ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے کے مطابق فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہے ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ آرڈرز کے مطابق تو ہر تاریخ پر وارننگ دی گئی ہیں۔
وکیل نے بتایا کہ یہ ایک ہی دن میں 3، 3 بار لکھے گئے آرڈرز ہیں، 24 گھنٹوں میں وارننگز دی گئیں، اعلی عدالت کی کسی ڈائریکشن کے بغیر جلد بازی میں ٹرائل چلایا گیا، سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کی ایک ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ڈائریکشن کالعدم کر دی تھی۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ اگر جج نے جلدبازی میں ٹرائل چلایا تو وہ ہم پراسیکیوشن سے پوچھیں گے۔
وکیل بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا جج صاحب کہتے رہے کہ ہائی کورٹ کی ڈائریکشن پر جلدبازی میں ٹرائل چلا رہا ہوں، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کوئی قدغن نہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل نہیں ہو سکتا، روزانہ کی بنیاد پر بھی ٹرائل منطقی طور پر ہونا چاہیے۔
’سائفر کیس کا ٹرائل اسلام آباد کی تاریخ کا متنازعہ ترین ٹرائل تھا‘
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کیس کا ٹرائل اسلام آباد کی تاریخ کا متنازعہ ترین ٹرائل تھا، ٹرائل کورٹ کے جج نے اس ٹرائل کو متنازعہ بنایا، ہمیں کورٹ آرڈرز کی نقول نہیں ملتی تھیں دو یا تین دن بعد ملتی تھیں، دو دفعہ ٹرائل کو ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیا پھر بھی فرق نہیں پڑا، جب سرکاری وکیل تعینات ہوئے تو ہمیں اس وقت بھی کورٹ آرڈرز نہیں ملے ، سایک ہی دن میں ہر آدھے گھنٹے بعد وارننگ ٹرائل کورٹ نے دی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جج صاحب اپنے فیصلے کے پیراگراف 2 میں لکھتے ہیں ہائی کورٹ ڈائریکشن کی وجہ سے جلدی فیصلہ کیا، حالانکہ ہائی کورٹ کی ڈائریکشن تو ختم ہو چکی تھی ، جج صاحب اس ایکٹ کی وجہ سے سروس کے لیے فٹ نہیں ٹھہرتے ہیں ، میں اگر یہ کہوں کہ یہ اسلام آباد کی تاریخ کا متنازع ترین ٹرائل تھا تو عجیب نہیں ہو گا ، وکیل
بعد ازاں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کو کل کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا اور سماعت کل تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ ایڈووکیٹ جنرل نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کیلئے سرکاری وکیل تجویز کیے تھے
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا پرنسپل کو ملنے والی چیز وزیراعظم کو موصول ہونا تصور ہو گی؟
یاد رہے کہ 13 مارچ کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت اور سزا معطلی کی اپیلوں پر میرٹ پر دلائل سننے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی کے وکلا سے دلائل طلب کرلیے تھے۔
اس سے قبل سماعت میں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے سزا کے خلاف اپیلوں پر دلائل کا آغاز کردیا جبکہ عدالت نے فریقین کو 11 مارچ مکمل تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کردی تھی۔
واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔
سائفر کیس
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔