کراچی: رینجرز نے 8 سال بعد ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت خالی کردی
کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت کو سندھ رینجرز کے انسداد دہشت گردی ونگ نے تقریباً 8 سال بعد جنوری کے دوسرے ہفتے میں خاموشی سے خالی کر دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مین گیٹ کے باہر سیمنٹ کی رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں، اس لیے بہت سے لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ یہاں صورتحال معمول پر آگئی ہے۔
ترجمان سندھ رینجرز نے ڈان کو تصدیق کرتے ہوئے کہ جی یہ سچ ہے، ہم نے ریڈیو پاکستان کی عمارت خالی کر دی ہے۔
جب ان سے اچانک عمارت خالی کرنے کی وجوہات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میڈیا ہم پر انگلیاں اُٹھا رہا تھا، اب جب ہم عمارت چھوڑ چکے ہیں، تو آپ کو اس سے بھی کوئی مسئلہ ہے؟ ہم کسی بھی جگہ خود نہیں جاتے، سندھ حکومت کی طرف سے ہمارے لیے عارضی انتظامات کیے جاتے ہیں، اب ہم گڈاپ میں ٹول پلازہ کے قریب نئی جگہ منتقل ہو گئے ہیں، جو ہماری ضرورت کے عین مطابق ہے۔
ریڈیو پاکستان کے سینئر ملازم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ آپ اس کے بارے میں سوچتے ہیں، تو یہ واقعی رینجر کے لیے مثالی جگہ نہیں تھی، شہر کے وسط کے مقابلے میں ان کے لیے زیادہ بہتر جگہ کنٹونمنٹ کے علاقوں میں ہوسکتی ہے، مزید کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ یہاں ان کے اپنے حفاظتی مسائل بھی ہوں گے۔
جب رینجرز پرانی عمارت میں تھے، تو ایسے میں ریڈیو پاکستانی کراچی مرکز دوسری عمارت سے چلایا جارہا ہے، جو گلشن اقبال میں سوک سینٹر کے قریب واقع ہے۔
رینجرز پر اس اقدام کی ذمہ دار نہیں تھی، اکتوبر 2007 میں پرانی عمارت میں آگ لگنے کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا تھا، رینجرز محرم کے دوران حفاظتی انتظامات کے لیے 2015 میں وہاں گئی تھی۔
جب وہ تقریباً 8 سال قیام پذیر رہے، یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ انہوں نے پرانی عمارت میں ریڈیو پاکستان کے کام جیسے کہ پروجیکٹ سیل میں منصوبہ بندی اور وہاں سے پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ماہانہ اردو میگزین آہنگ کی اشاعت میں کوئی مداخلت نہیں کی۔
اب سیلز اور مارکیٹنگ اور نیوز سیکشن سے شروع ہوکر تاریخی عمارت تک زیادہ تر آپریشنز کو آہستہ آہستہ لیکن بتدریج واپس منتقل کرنے کے منصوبے ہیں۔
اس عمارت کا افتتاح 16 جولائی 1951 کو کوئینز روڈ پر واقع انٹیلی جنس اسکول سے کراچی اسٹیشن کے وہاں منتقل ہونے کے بعد کیا گیا تھا، جہاں زیڈ اے بخاری، شاہد احمد دہلوی، ایس ایم سلیم اور عبدالمجید جیسی قد آور شخصیات کی رہنمائی میں تقسیم کے فوراً بعد کراچی سے میڈیم ویو ٹرانسمیشن کا آغاز ہوا تھا۔